Saaf Shaffaf Loot Mar By Hajra Riaz

صاف و شفاف لوٹ مار

تحریر :ہاجرہ ریاض

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe and find best Urdu Reading Material at Caretofun.

Join Our Whatsapp Channel
Follow Our Facebook page

برصغیر کے مسلمانوں کو کوششوں کے نتیجے میں اللہ تعالی نے انہیں ملک پاکستان سے نوازا ۔ایک آزاد ملک انہیں عطا کیا  جس میں اسلامی قانون کا نفاذ عمل میں لایا جا سکے۔اللہ کی اس نعمت کا جتنا  شکر ادا کیا جائے اتنا کم ہے۔لیکن اسے شاید ہماری بد نصیبی ہی کہا جا نا چایئے کہ بےشمار قربانیوں میں حاصل کیا جانے والا ملک ابھی تک زبوں حالی کا شکار ہے ۔حالانکہ قربانی دینے کے بعد کسی قدر اچھے صلے کی توقع کی جاتی ہے۔پاکستان کے وجود میں آتے ہی جہاں بے شمار دیگر مسائل نے گھیرا ہوا تھا وہیں ایک مسئلہ حکمران کا بھی رہا ہے۔گو کئی حکمران پاکستان کے نصیب میں آئے لیکن پا کستان کے مفاد کے کیے کام کرنے والے بہت ہی کم نکلے یا شاید جنہوں نے کچھ کرنے کی کوشش کی وہ وضع کردہ قوانین کے ہاتھوں شکست کھا گئے یا تو انہیں اتنی مہلت ہی نہیں دی گئی وہ اپنی آواز دوبارہ بلند کر سکیں ۔

اگر زیادہ  پرانی بات نہ کی جائے تو گزرے دس سالوں اور موجودہ اقتدار کے گزرتے عرصہ کے حالات و واقعات اس بات کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔پچھلی حکومتوں نے ہر طرح کے اوچھے ہتکھنڈے استعمال کیے جس سے عوام کو لوٹا جائے اور بدلے میں کسی بھی ناگہانی صورت میں عوام کا پیسہ حکومتی ہمدری کے طور پہ وصول کرنے پہ اسی نادان عوام نے حکومت کے تلوے چاٹنا شروع کر دیئے۔ نئے پروجیکٹز کی آڑ میں  بااختیار لوگوں نے اپنے کاروبار سیٹ کیے۔قریب اور نادان عوام میں حب الوطنی کے جذبات بیدار کروا کے ان کے خون پسینے کو تیل کی مانند بہا کر اپنے گلشن کی آبیاری کی۔ہر حکومت اقتدار میں آتے ہی قرضے اور نئے منصوبے لاتی رہی لیکن پچھلے دس سالوں سے لے کر موجودہ دور تک ایسا کوئی منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکا جو ملک کی ترقی میں کردار ادا کر سکے۔یا شاید اقتدار اقتدار کے کھیل میں بس یہ دعووں کے لیے منصوبے دستخط کیے جاتے ہیں تاکہ  ہر آنے والی حکومت اپنے دائیں بازو کو مضبوط کرتی جائے ۔یہاں دائیں بازوؤں کا کردار بھی اہم ہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ شاید باقی ممالک میں حکومت کی  شاذو و نادر کوتاہیوں کو درست کرنے کی غرض سے اسے  دائیں بازو کی حمایت حاصل ہوتی ہے  لیکن ہمارے ہاں تھوڑٓا بر عکس عمل ہے دائیں بازو کا کردار ادا کرنے والی تنظمیوں،افراد یا اداروں کو خوب نوازا جاتا ہے  یا بعض دفعہ تو بائیں بازو کا کردار ادا کرنے والے اچانک حکومت کی طوطی بولنا شروع ہو جاتے ہیں ،غرض اس بات کا کیا رونا رونا  حمایتی و انقلابی رویے یہاں شاید ہی کامیاب ہوں چونکہ یہاں اقتدار کا مطلب عوام کی فلاح نہیں بلکہ اپنے بینک بیلنس کی مضبوطی ہے۔حالانکہ اپنے اکاؤنٹ کو دیگر ممالک میں بھی صاحب اقتدار بھرتے ہیں لیکن اللہ کا خوف ان میں شاید  تھوڑا زیادہ ہے ۔

الغرض اپنے ملک کی طرف واپس پلٹا جائے تو موجودہ حکومت جو کہ کئی وعدوں اور امید کی کرن کے طور پہ سامنے آئی تھی ۔شاید کہیں گم ہوتی ہوئی  نظر آرہی ہے۔ بے شمار نئے پروجیکٹ اور عوام کو سہولت دینے کی خواہاں حکومت بجھتی سی نظر آرہی ہے۔ حکومت کے وجود میں آتے ہی بڑے بڑے مافیا کو سرعام ذلیل و خوار کیا گیا ،مزید کچھ عرصے بعد بے نام زمینوں و جائیدادوں کے بے شمار کیسیز سامنے آئے اور اس ضمن میں ایک محدود وقت کی آفر کی گئی جس میں مالکان کو ان کا حق دیا جاتا تھا ۔کیا کوئی اس حکومت سے یہ پوچھنے والا ہے کہ اس انصاف کے لیے وقت کیوں مقرر کیا گیا،کیا ایسا کوئی لائحہ عمل تشکیل نہیں دیا جا سکتا تھا جو طاقت ور کو جبر یا بے ایمانی کے طریقے سے حاصل کردہ زمینوں سے محروم کر دیں؟نہیں جہاں اس اقدام سے کسی کو فائدہ پہنچا بھی دوسری طرف کی خاموشی کیا یہ سوال نہیں اٹھاتی کہ بنیادی مقصد گزشتہ حکمرانوں یا ان کے نمایئنداگان کی جائیدادوں کو ہی سامنے لانا تھا۔کیونکہ اب بھی بے شمار ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں یہاں بھی انصاف نہیں ملا۔مزید آگے چلیں، تو  زور و شورکے ساتھ چوروں کو پکڑنے کی بات کی جاتی ہے۔ایک معمولی چور سے لے کر ملک کا خزانہ خالی کرنے والے فراد سامنے لائے گئے لیکن فی الوقت کسی کی مجال جو ایک پیسہ بھی ان سے وصول کیا گیا ہو۔اور وہی چور اب بھی مکمل آزادی سے زندگی گزار رہے ہیں۔شاید ہمارا چلن ہی ایسا ہے کہ چوروں کو تو پکڑ لیا جاتا ہے لیکن ڈاکا ڈالنے والے آنکھوں کے سامنے گھوم رہے ہوتے ہیں۔غرض اس بات سے کسی کو شاید ہی اختلاف ہو کہ ہمارے وزیر اعظم ایک بہترین سوچ کے حامل ہیں ۔وہ ملک پاکستان کو ان ممالک کے برابر لانا چاہتے ہیں جو دنیا میں ایک مقام بنا رہی ہیں لیکن کیا کبھی اس بات پہ غور کیا ہے انہوں نے کہ وہ کن لوگوں کے ہمراہ چل رہے ہیں ۔کیا یہ لوگ وہی نہیں ہیں جو پچھلی حکومتوں میں تمام ہتکھنڈے استعمال  کر چکے ہیں ۔ہر روز کے بدلتے وزیر کیسے کسی ملک کا نظام بہتر کریں گے ۔ الٹا اپنے ہڑپ کرنے کے انداز اختیار کر کے موجودہ حکومت کی ساکھ مٹا رہے ہیں۔نظام سے یہاں ایک بات ذہن میں آرہی ہے کہ ہمارا نظام بدلا ہی کب؟یہاں تو سب ویسا ہی ہے جیسے پہلے تھا ہاں البتہ طریقہ کار میں جدت آئی ہے۔

غریب عوام اپنے ہی بارہ ہزار روپے حکومت کی طرف سے لینے پہ دعائیں دیتی ہے لیکن انہیں شاید اس بات کا اندازہ نہیں کہ یہ انہیں کا خون پسینہ ہے۔غربت و افلاس میں ڈوبی قوم اس شخص کو مسیحا قرارا دیتی ہے جو تیں مہینے کے لیے انہیں گھر بیٹھے راشن فراہم کرے۔تو کیا دینے والے کے اپنے معاملات کے لیے بارہ ہزار کافی ہوتے ہیں شاید نہیں ۔لیکن ہم عوام اس حکومت کا رونا نہیں رو سکتے ہماری قمر اس قدر بوجھ تلے دبی ہے کہ شاید ہی کبھی کوئی بوجھ ہلکا کر سکے۔

میرے خیال میں حکومت کو اب وعدوں سے نکل کر کچھ سوچنا چایئے ۔کیونکہ اب وقت عمل کا ہے نہ کہ تقریر کا ،گو کہ کچھ قدرتی آفات کا سامنا ضرور ہے لیکن اس پہلے بھی بہت وقت حکومت صرف وعدوں میں صرف کر چکی۔بعض ٓدفعہ تو ایسا بھی محسوس ہوا ہے کہ وزیر اعظم کو دور تک کسی خبر یا منصوبے کا علم نہیں اور ٹی شو پہ وزیر دعوے کرتے  رہے ہیں ۔ بے شمار مشکلات کے باوجود اگر ہمارے حکمران واقعہ میں اپنی عوام کا بھلا سوچتے ہیں تو لازمی طور پہ انہیں اپوزیشن کو ساتھ لے کہ چلنا چایئے سابقہ لوگ ہر طرح کے معاملاے سے بخوبی واقف ہیں لیکن ابھی تک اور کرونا جیسی مہلک صورت حال میں بھی ہمارے حکمران دوسروں پہ لعن و طعن کے سوا کچھ نہیں کر رہے۔ پچھلے منصوبوں پہ غور وحوض کرتے ہوئے انہیں اپنے ملک کئ لیے فائدہ مند بنانا چایئے ۔لیکن یہاں ایسا کچھ نظر نہیں آرہا جو بھی حکمران اپنی عوام کو اعتماد میں لینا چاہتا ہو یا اس کی بھلائی مقصود ہو وہ یقینا حقائق کو سامنے رکھتا ہے ۔وزیراعظم مثالی ریاست بنانے میں شاید کبھی کامیاب ہوں لیکن اس کے اقدام میں یہ چیز ضرور ہو کہ ہر حقیقت کو سامنے لایا جائے ،چاہے وہ حکومت کی کامیابی ہو ،چینی اسکینڈل،علیمہ باجی کیس،بارہ ہزار روپے کی سہولت،لاہور ایکسپو سینٹر،یا انصاف صحت کارڈ کی تقسیم ہر اسکیم کے اصل حقائق سامنے آنے چایئے کیونکہ زمینوں کی واپسی کی طرح بارہ ہزار دینے کی شفافیت بھی شروع شروع کا شور تھا ۔اس کے بعد یہاں بے شمار مثالیں ہیں جو سرکاری مال وصول کرنے کے باوجود ملزموں کی فہرست میں اول رہے ہیں۔غرض حکومت کے اچھے اقدام میں اگر تعلیم کی بات کی جائے تو اس سے انکار نہیں نصاب کا نجی و سرکاری سکولوں میں ایک جیسا ہونا قابل ستائش ہے ۔غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام حکمران کے ساتھ وہاں ضرور کھڑی رہے گی یہاں کوئی ایسا قدم اٹھایا جائے گا جس میں سب کی بہبود ہو لیکن وہاں سوال کرنے اے بالکل بھی نہیں جھجک محسوس کرے گی یہاں پس پردہ معاملات طے کیے جائیں گے۔

حکومت سے شاید سوچنے سمجھنے والا بندہ یہی درخواست کر رہا ہے کہ خدارا جیسے پودوں کی کاشت میں ترقی کی ہے اسی طرح کچھ ملکی ترقی کے لیے بھی اقدامات کریں۔اپنے آپ کو بظاہر نظر آنے والا ایسا مضبوط و تناور  درخت مت بنائیں جو اندر سے کھوکھلا اور ویران ہوتا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top