Mamoon Urdu Afsana By Muhammad Asif Saeed Khan

ماموں
تحریر:-

محمد آصف سعید خان بھٹہ

 

 

شاپنگ مال میں وہ عین میری آنکھوں کے سامنے تھی میں کافی دیر سے اسے اپنی نگاہوں کے حصار میں لیے یک ٹک دیکھے جا رہا تھا زمانے کی گردش نے اسے پہلے سے بھی زیادہ حسیں اور پر کشش بنا دیا تھا اس کی ستواں ناک مجھے دور سے ہی دکھائی دے رہی تھی اور اس کے لامبے بھورے بال جو اس کی پتلی کمر پہ بل کھاتے رہتے تھے آج بھی اس کی کمر پہ لہرا رہے تھے۔

” تم ذرا بھی نہیں بدلی ”
میں نے پیچھے سے جا کر چپکے سے اس کے کان میں سرگوشی کی۔

” ہاۓ اللّہ ”
وہ ایک دم سٹپٹا کر پیچھے مڑی اور مجھے دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی۔
” منیب۔۔۔تم “

” ہاں میں ”
میں نے جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتے ہوۓ لاپرواہی سے جواب دیا۔

” کیسی ہو تم ”
” میں ٹھیک ہوں تم سناؤ کیسے ہو ”
” تمہارے سامنے ہوں خود ہی دیکھ لو ”
مجھ میں اچانک وہ پرانی یونیورسٹی والی شوخی در آئی۔

” تم بھی تو نہیں بدلے ”
اس نے شرماتے ہوۓ کہا۔

” تم نے شرمانہ بھی سیکھ لیا۔۔۔ہاں ”
میں بھلا اس کے اس روپ سے کب واقف تھا یونیورسٹی میں وہ کسی طور بھی سلطان راہی سے کم نہیں ہوا کرتی تھی۔

” ویسے تم یہاں کہاں گھوم رہے ہو ”
اس نے بات بدلتے ہوۓ کہا پر اس کی آنکھوں کی چمک بتا رہی تھی کہ وہ آج بھی مجھے نہیں بھولی۔

” بس ذرا خریداری کرنی تھی اور پھر تم نظر آ گئی ”
میں نے شوخ ہوتے ہوۓ اس کی آنکھوں میں جھانکا وہ ایک لمحے کو ٹھٹھکی پر اگلے ہی پل اس نے خود پہ قابو پا لیا تھا۔

” اکیلے آۓ ہو یا ساتھ میں۔۔۔۔۔۔ ”
اس نے میرے آگے پیچھے دیکھتے ہوۓ جان بوجھ کر بات کو ادھورا چھوڑا تھا۔
وہ بھلا میرے ساتھ کب کسی کو برداشت کر سکتی تھی۔

” ہاہاہا۔۔۔۔ہاں اکیلا ہی ہوں ”
نہ چاہتے ہوۓ بھی مجھے ہنسی آ گئی۔

” وہ۔۔میرا۔۔۔مطلب یہ نہیں تھا ”
وہ میرے اس طرح قہقہہ لگانے پہ بوکھلا گئی تھی اور اس کا یہی بوکھلانا میرے دل کے تاروں کو چھیڑ گیا تھا تو اس کا مطلب وہ آج بھی مجھ سے محبت کرتی ہے۔
مجھے بے اختیار یورنیورسٹی کے وہ دن یاد آ گئے جب ہم یک جان دو قالب ہوا کرتے تھے اور ایک پل کی دوری بھی ہم دونوں سے سہی نہیں جاتی تھی پر پھر زمانے کی ایسی نظر لگی کہ ہم جدا ہو گئے۔

” شادی تو کر لی ہو گی تم نے ”
اس نے نگاہیں چُراتے ہوۓ پوچھا۔

” کمبخت۔۔۔یہ دل مانا ہی نہیں تمہارے بعد ”
میں نے سینے پہ مُکا مارتے ہوۓ اس سے صاف جھوٹ بولا۔۔۔۔۔میں اسے دُکھی نہیں دیکھنا چاہتا تھا نا۔

” کر لینی چاہیے تھی ”
وہ ایک دم پر سکون ہو کر مجھے مشورہ دے رہی تھی۔

” اب کر لوں گا ”
میں نے دونوں ہاتھ سینے پہ باندھتے ہوۓ دیوار کا سہارا لے کر اسے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا۔۔۔۔اس نے فوراً رخ پلٹ کر دوسری طرف دیکھنا شروع کر دیا۔

” تم یہاں پلے سٹیشن کے پاس۔۔۔۔۔۔!!! ”
میں جانتا تھا کہ وہ شادی شدہ ہے اور دو بچوں کی ماں ہے پر میں اس کے منہ سے سننا چاہتا تھا۔

“وہ میرے بچے۔۔۔۔۔یہ کہہ کر وہ ایک لمحے کو رکی اور پھر ہچکچاتے ہوۓ آہستہ سے بولی۔۔۔۔۔۔ادھر اندر ہیں ”
وہ ایسے بتا رہی تھی جیسے اپنا گناہ قبول کر رہی ہو۔

” تو مجھے نہیں ملواؤ گی اپنے بچوں سے ”
میں نے اس کی خفت دور کرنے کے لیے کہا۔

” ہاں ہاں کیوں نہیں ”
وہ میری بات سن کر کِھل اٹھی اور بچوں کو لینے کے لیے اندر بڑھی۔

” چلو بچوں۔۔۔ماموں کو سلام کرو ”
وہ اپنی تین سالہ بچی اٹھاۓ اور پانچ سالہ بیٹے کا ہاتھ تھامے اسے میری طرف بڑھاتے ہوۓ بولی۔
میرے بچے کی طرف بڑھتے قدم جم سے گئے۔

” تمہارے پاس چُلو بھر پانی ہو گا ”
میں نے بے تاثر چہرے سے اس کی طرف دیکھا۔

” چُلو بھر کیوں پوری بوتل ہے نا ”
اس نے پانی کی بوتل نکالنے کے لیے بیگ میں ہاتھ ڈالا۔
اس کی اردو کمزور تھی میں جانتا تھا پر اتنی کمزور ہو گی مجھے اندازہ نہیں تھا۔
اس سے پہلے کہ وہ بوتل نکال کر مجھے تھماتی میں پہلے ہی وہاں سے نکل آیا۔
آپ کو تو شائد میرے اس کُرب کا اندازہ نہیں ہو رہا گا جس سے میں اس وقت گزر رہا تھا پر وہ لوگ جو جانُو سے ماموں بنے ہیں وہ میری اس حالت کو اچھے سے جان رہے ہوں گے۔

Leave a Comment

%d bloggers like this: