اور کبھی کبھی ساری زندگی گزار کر بھی ہمیں زندگی کا مقصد نہیں ملتا۔ ہم وہی رسم و رواج میں دھنسے زندگی گزارتے ایسے ہی ایک دن مرجائیں گے جیسے باقی مر گئے۔ باقیوں کی موت ہمیشہ ہمیں ہماری منزل یاد دلاتی ہے لیکن ہم بھاگتے ہیں دنیا کی کامیابیوں کے پیچھے۔
کوئی مندر مسجد میں رب ڈھونڈتا تو کوئی نمازوں اور سجدوں میں لیکن غفلت بھرے دلوں کو کون دیکھے۔
جب جسم بیمار پڑ جائے تو بڑے سے بڑے ڈاکٹر پاس جاتے ہیں جب روح بیمار پڑ جائے تو سوچتے بھی نہیں۔
اور روح تو لگتا ہم سب کی بیمار ہے۔ کوئی ایسا پیمانہ بھی ہو جو ہمیں حلال حرام، اچھے بُرے کا فرق بتا دے۔
اللہ نے وہ پیمانہ انسان کے اندر لگایا ہے جو بروقت ضرورت ہمیں یاد دلاتا ہے اور وہ ہے ہمارا نفس۔
نفس سے بڑھ کر انسان کا کوئی دشمن نہیں یہ نفس چھلاوے کی طرح ہے جو ہمیں ہر اس چیز کی طرف مائل کرے گا جس سے ہمیں فائدہ اور تسکین پہنچے گی مگر جس نے اسی نفس پہ قابو پا لیا اس نے خود پہ فتح پا لی۔
انسانیت قضا کر کے نمازوں میں بھی تسکین نہیں ملتی۔ کہتے ہیں بچوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں کیونکہ کی گناہوں سے پاک ہوتے ہیں اور جیسے جیسے ہم یہ فرق بھولتے جاتے ہیں گناہوں کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں پھر یہ سمجھ بھی نہیں آتی دعاؤوں کی قبولیت کیوں نہیں ہوتی پھر دل کی بے وجہ بے چینی کو ڈپریشن کہتے ہیں۔
رب نے انساں کو مٹی سے بنا کر اشرف المخلوقات کا درجہ دے دیا اور ہم ایک “میں” لیے بیٹھے ہیں۔ اور اس مٹی نے کب مٹی ہوجانا پتا بھی نہیں چلنا جس ہچکی کے ساتھ انسان دنیا میں آیا اُسی ہچکی کے ساتھ واپس بھی چلا جائے گا۔
دنیا میں ماں سے بڑھ کر کوئی مخلص نہیں کوئی پیار کرنے والا نہیں ماں سے بڑی کوئی نعمت نہیں لیکن ماں سے بڑھ کر ہمیں چاہنے والی ذات جس نے اس دنیا کا ذرہ ذرہ پیدا کیا وہ آپ سے ماں سے بھی بڑھ کر پیار کرتا۔
وہ رب اپنی ہر نعمت سے بن مانگے نوازے گا لیکن اپنا قرب اور ہدایت بن مانگے نہیں دے گا۔
ہدایت تو زندگی کے ہر موڑ پہ درکار ہے خواہ آپ کسی بھی عمر پہ ہوں۔ ہمارا دین بہت پیارا مذہب ہے ہمارے پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم انسانیت کی اعلیٰ مثال ہیں۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے عبادات سے زیادہ اپنے اخلاق کی بنا پر اسلام کا بول بالا کیا۔
تنقید اور طعنہ زنی کر کے لوگوں کو آمادہ نہیں کیا بلکہ اپنے اخلاق اور اعمال سے کیا۔
ہم آج کے مسلمان سمجھتے ہیں دین کے ٹھیکیدار ہم ہی ہیں اور ہر دوسرا شخص گناہوں سے بھرا ہے۔ زبانوں پہ تلخی اور طنز اور دلوں میں میل لیے پھرتے ہیں اور فخر کرتے ہیں مسلمان ہونے پر۔ ہم خود کو ٹھیک کیے بغیر اپنا نفس پاک کیے بغیر لوگوں کے لیے شکوہ شکائتیں لیے پھرتے ہیں۔
زندگی ہمیں مہلت دیے ہوئے ہے آخری سانس تک
اب یہ آخری سانس اگلا ہی لمحہ ہو کیا پتا!!!
نوشین اعوان کی مزید تحاریر پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔