صبح کا وقت تھا اور میں اپنی بیوی کے ساتھ ٹیبل پر بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا۔ آج میں نے تہیہ کیا تھا کہ اس کو جین کے بارے میں بتا کر رہوں گا۔ تین مہینے سے ایک لڑکی جین میری زندگی کا اہم حصہ بن چکی تھی اور میں ہر روز اس کے ساتھ وقت بتاتا تھا۔
Thank you for reading this post, don't forget to subscribe and find best Urdu Reading Material at Caretofun.
Join Our Whatsapp Channel
Follow Our Facebook page
میں جین کے ساتھ اتنا خوش تھا کہ میں نے سوچ لیا تھا کہ اپنی بیوی کو طلاق دیدوں گا۔ بہت دنوں سے مسلسل کوشش کر رہا تھا مگر اس کو بتا نہیں پا رہا تھا بس آج ضرور بتا دونگا میں نے فیصلہ کیا۔ میں بولا : بیگم۔۔۔بس میرا تمہارا ساتھ یہیں تک تھا ، میں اب کسی اور کو تہہ دل سے پسند کرتا ہوں اور ہم دونوں شادی کرنے جا رہے ہیں۔ میں تمہیں چند دن میں طلاق دے دوں گا۔ میری بیوی آہستہ سے بولی کہ کیوں ؟
۔۔میں نے آگے سے کوئی جواب نہ دیا تو ایک دم غصے میں آگئی اور کھانے کا ڈونگا نیچے پھینک دیا اور اٹھ کر اوپر اپنے کمرے میں چلی گئی۔میں نے سوچا کہ میں نے بلکل صحیح فیصلہ کیا ہے۔ میں جین کے پاس چلا گیا۔
شام کو میں نے گھر پر وکیل بھیجا جس نے میری بیوی کو بتایا کہ طلاق کے بعد اس گھر کی مالک وہ ہو گی اور میرے بزنس کے تیس فیصد شےئر بھی اس کے ہوں گے۔ میرے وکیل نے فون کر کے بتایا کہ آپ کی بیوی نے سب لینے سے انکار کر دیا ہے مجھے کچھ سمجھ نہ آئی ۔ رات کو میں گھر لوٹا تو دیکھا ۔
کہ میری بیوی کمپیوٹر ٹیبل پر بیٹھی کچھ لکھ رہی تھی۔ میں نے دھیان نہ دیا، اور جین کے بارے میں سوچتا ہوا سو گیا۔ صبح اٹھا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی دیکھا کہ میری بیوی ابھی تک ٹیبل پر بیٹھی کچھ لکھ رہی تھی۔ میں پاس گیا اور پوچھا کہ کیا کر رہی ہو۔
بولی کہ آپ مجھے طلاق دے دیں مگر میری دو شرطیں آپ کو ماننی پڑیں گی۔ میرا دل پگھل گیا، میں نے بولا اوکے پرومس۔۔۔اس نے بتایا کہ ایک تو آپ مجھے ایک مہینے کے بعد طلاق دو گے، تب تک ہم ایسے ہی رہیں گے کہ ہمارا بیٹا سمجھے کہ ہم میاں بیوی ہیں۔۔کیانکہ اس کے اگلے مہینے ایکزامز تھے۔
دوسرا آپ روز صبح مجھے کمرے سے اسی طرح اٹھا کر ناشتے کی میز پر لیکر جاؤ گے جیسے شادی کے پہلے دن لے کر آئے تھے۔ پورا ایک مہینہ۔ میں نے سوچا کہ کتنی پاگل ہے میرے سے کوئی پیسے گھر، بزنس بھی نہیں قبول کر رہی، اس کی معصوم دو شرطوں سے کیا فرق پڑ جائے گاسو میں اس کی بات مان گیا۔ پہلی شرط ایک مہینے کے بعد طلاق اور دوسری روز اس کو اٹھا کر میز پر لجانا۔ اس کی پہلی شرط کافی ٹھیک تھی کیونکہ میرے بیٹے کے پیپرز ایک مہینے بعد تھے۔
اور ہم دونوں اس کی بہتری چاہتے تھے۔میں اس دن جین کے پاس گیا اور اس کو ساری بات بتائی وہ بہت ہنسی کہ تمہاری بیگم سٹھیا گئی ہے بیچاری۔ مجھے تھوڑا غصہ آیا جین کی بے حسی پر۔ خیر مہینے کا پہلا دن آیا میں نے صبح اپنی بیوی کو گود میں اٹھایا۔ عجیب لگ رہا تھا۔ مجھے ہنسی بھی آرہی تھی کہ میرا بیٹا آگیا وہ خوشی سے تالیاں بجانے لگا۔
ہم لوگ ہنس پڑے۔ میز پر بیوی کو چھوڑا، سب نے ناشتہ کیا اور بیٹا سکول چلا گیا، میں اپنے آفس اور بیگم اپنے دفتر۔ کچھ نہ بدلا میں اسی طرح شام کو جین کے ساتھ تھا۔ روز صبح اسی طرح بس ایک بار بیگم کو گود میں اٹھا کر ٹیبل پر چھوڑ دیتا اور اس سے میرا بیٹا بہت خوش ہوا کرتا تھا۔ بس ایک بات عجیب تھی کہ میری بیوی کا وزن روز روز کم ہوتا جا رہا تھا۔
ایک دن میں نے اٹھایا تو مجھے لگا جیسے اسے بخار ہو، میں نے پہلی دفعہ اس کی جھریاں دیکھیں اور پھر اس کی بالوں کی چاندنی، مجھے اپنے اوپر شدید غصہ آیا کہ میں نے اس کی اتنی فکر کیوں نہ کی جتنی کرنی چاہیے تھی۔ خیر پھر وہی روٹین۔
اگلے دن اس کو اٹھایا اور اس نے میرے گلے میں بازو ڈالے تو مجھے اس پر بہت پیار آیا۔میں اس کی مہک کو اپنے اندر جزب کر رہا تھا۔ پھر میرا بیٹا بھاگتا ہوا آیا، یس نے یہ روز کا ایک کھیل بنا لیا تھا ۔ صبح بھاگ کر آجاتا تھا اور کہتا تھا پاپا ماما کو اٹھاؤ نہ۔ پھر ناچتا رہتا تھا۔ میری ہر صبح پہلے کی صبح سے بہتر ہونے لگی تھی۔ آخری دن آن پہنچا۔۔۔میں نے اپنی بیوی کو اٹھایا اور ناشتے کی میز پر اتار دیا۔ اس نے کپڑے صحیح کیے اور ناشتہ کرنے لگی۔ میرا بیٹا اسی طرح ہنس کھیل رہا تھا اور وہ اسے ناشتہ کرا رہی تھی۔ میرا دل کیا کہ ساری عمر ایسے ہی گزر جائے۔ میں اسی وقت اٹھا اور جین کے گھر نکل پڑا۔
جین مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ میں نے اس کو بتایا کہ سوری جین میں اپنی بیوی سے اب بھی بہت پیار کرتا ہوں اور میں اسے کبھی بھی طلاق نہیں دوں گا۔ جس دن میں نے اسے شادی کے پہلے دن اٹھایا تھا میں نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ آخری دم تک اس کا ساتھ دوں گا۔
یہ سن کر جین چلانے لگی اور زور زور سے رونے لگی۔ میں بھول گیا تھا کہ میری بیوی کیسی دکھتی تھی۔ ہم میں دوری آگئی تھی مگر روز صبح اس کو اپنی گود میں اٹھا کر میں نے دوبارہ اسی پیار کو محسوس کیا تھا ۔
جو ہم دونوں میں پہلے تھا اور سب سے بڑھ کر میرے بیٹے کا ہنستا ہوا چہرہ میرے اندر سکون بھر دیتا تھا۔ میں اپنے گھر واپس چل پڑا کیونکہ آج اتوار تھا اور سب کی چھٹی تھی۔ میں نے سوچا کہ اپنی جان کو یہ اچھی خبر دیتا ہوں۔اندر گیا تو نیچے کوئی نا تھا، اوپر کمرے میں گیا تو دیکھا کہ میری بیوی مری ہوئی تھی۔ میں بچوں کی طرح رونے لگ گیا۔ کچھ دن بعد معلوم ہوا کہ وہ سب کچھ جانتی تھی اس کو کینسر ہو گیا تھا اور وہ مجھ سے چھپاتی تھی۔
صرف ہمارے بیٹے کے لیے وہ چاہتی تھی کہ ہم آخری مہینہ ساتھ گزاریں تا کہ میرا بیٹا ہمیشہ خوش رہے اور یہ سمجھے کہ اس کا باپ یس کی ماں سے بہت پیار کرتا تھا۔ وہ صرف ہمارے بیٹے کی خوشی کی خاطر صبح گود میں اٹھانے کا بولتی تھی۔ آج میرا بیٹا بڑا ہو چکا ہے اور بے حد کامیاب ہے ، وہ یہی جانتا ہے کہ اس کے ماں باپ میں بہت محبت تھی۔ اپنی بیوی کا یہ احسان میں کبھی نہیں چکا سکتا۔
وہ مجھے بہت یاد آتی ہے۔ مکان، گاڑی، کپڑے جوتے سب معمولی چیزیں ہیں، رشتوں کی قدروقیمت ان سب سے کہیں زیادہ ہے۔ مکان، پیسا صرف خوشی تب دیتے ہیں جب ان کو شےئر کرنے کے لیے گھر والے ساتھ ہوں۔ یہ بذات خود صرف ایک پر مسرت زندگی کا زریعہ ہیں۔ خوشیاں ان سے ملتی ہیں کیونکہ یہ ہماری زندگی کو آسان بناتے ہیں، لیکن صرف ان چیزوں کے ساتھ خوشی کو منسوب کرنا بیوقوفی کی انتہا ہے
urdu novel |
novels |
novel in urdu |
urdu novels |
novel bank |
yaram novel |
novel in urdu pdf |
black moon novel |
kitab nagri |
urdu novel bank |
sitamgar novel |
peer kamil novel |
mala novel |
rooh e yaram novel |
junoon e ishq novel |
novels in urdu |
bakht novel |
namal novel |
zubi novel |
black moon novel pdf |
novel peer e kamil |
peer e kamil |
urdu novels pdf download |
romantic urdu novels |
beast ka ishq novel |