بچوں کو بچہ سمجھیں
بقلم نوشین اعوان
کچھ دن قبل بھکر سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم نے خودکشی کرتے ہوئے اپنے ماں باپ کے نام خط چھوڑا جو کہ انتہائی تکلیف دہ الفاظ تھے اس نے لکھا کہ” میں نے نمبر لینے کی بہت کوشش کی لیکن میں نہیں لے سکا مجھے معاف کر دیں”
ایسے ہزاروں کیسز ہمارے اردگرد موجود ہیں۔
والدین نے خود کو ذمہ داری سے آزاد کرنے کے لئیے موبائل فون بچوں کے ہاتھ میں دی دیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ بچوں کا تعلیم میں رجحان کم ہونے کے ساتھ ساتھ اضافی سرگرمیوں میں بھی دلچسپی نہیں رہی۔
اور اس کے ٹیکنالوجی کا غیر ضروری استعمال بچوں کو غلط چیزوں کی طرف مائل کر رہا ہے۔
ہمارے اردگرد صرف ڈپریشن ہے۔ نیوز چینل لگائیں یا کوئی ڈرامہ صرف ایسی چیزیں دیکھنے کو ملیں گی جو مزید منفی کریں گی۔ ہر کوئی ذہنی بیماری میں مبتلا ہے لیکن جس کی جتنی قوت مدافعت ہے وہ اتنا ہی برداشت کرتا ہے۔ جب برداشت ختم ہو جائے یا تو وہ ذہنی توازن کھو دیتا ہے یا زندگی سے ہار جاتا ہے۔
Thank you for reading this post, don't forget to subscribe and find best Urdu Reading Material at Caretofun.
Join Our Whatsapp Channel
Follow Our Facebook page
کسی کے چھوٹے سے الفاظ زندگی بھر آپ کی شخصیت پہ منفی اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔ ماں باپ کو گندا رزلٹ نہیں چاہئے لیکن بچوں کو ذہنی اذیت دینا قبول ہے
آج ہر دوسرا شخص ذہنی بیماری میں مبتلا ہے۔
بچوں کو ہر وقت پڑھنے کے طعنےدینا اور مارنا حل نہیں ہے بچے کو سننا اور سمجھنا ہے۔
ہمیں اس وقت اپنے اردگرد مثبت رویوں کی ضرورت ہے۔ اساتذہ کسی نالائق سٹوڈنٹ کو لائق ہونے کا احساس دلائیں تو اس میں ضرور بہتری آئے گی۔ ہم سمجھتے ہیں بچے کی عزت نفس مجروح نہیں ہوتی جب کہ کم عمری میں بچہ جو رویہ دیکھتا ہے وہی اس کی ذات پہ اثر کرتا ہے۔
میرے خیال میں ہر سکول میں سائیکالوجسٹ بھی ہونا چاہیے جو ایسے بچوں کی کاؤنسلنگ کر سکیں۔ جنہیں ماں باپ یا اساتذہ سمجھنے سے قاصر ہوں تو وہ ڈاکٹر اس کی نفسیات سمجھ لے۔
جس تعلیم کے نام پہ بچے خودکشیاں کر رہے ہیں اس کی بنیادیں اس قدر خراب ہو چکی ہیں کہ اس کا مقصد صرف رٹے لگا کر اچھے نمبر لینا رہ گیا ہے۔ ہمیں ڈگریاں بڑھانے سے زیادہ تعلیمی معیار بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔