ان دنوں کی بات ازعرفانہ شاہنواز
حسب معمول صبح اٹھا ۔آج اس کی میٹنگ تھی ۔جلدی سے تیار ہونےلگا ۔ ” ارے سنیے جی ۔۔بیگم کے بلانے پر پیچھے پلٹ کر بیگم کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا جی بیگم صاحبہ فرماٸیے ۔ “مجھے ہسپتال جانا ہے اور ڈراٸیور چھٹی پر گیا ہوا ہے، کیا آپ مجھے ہسپتال لے جاٸیں گے؟
میں تو آج لیٹ ہو رہا ہوں میٹنگ ہے علی کو کہتا ہوں ، کمرے سے باہر نکلا تو علی کا سامنا ہو گیا ۔۔علی بیٹا اپنی ماما کو ہسپتال لےجانا میں آفس سے لیٹ ہو رہا ہوں ۔۔۔ “سوری پاپا میرے پاس ٹاٸم نہیں ہے، وہ یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا ۔۔۔
ہکا بکا وہی کھڑا دیکھتا رہ گیا۔۔ بیگم صاحبہ آپ تیار رہیے گا! میں شام کو ہسپتال لے چلوں گا۔ وہ جلدی سے باہر نکلا اور گاڑی سٹارٹ کر کے آفس کےلیے نکلا۔ آج روڈ پر کافی رش تھا ۔اسے غصہ آرہا تھا ، لیکن خدا، خدا کر کے آفس پہنچا تو آگے لفٹ خراب تھی، اسے تیسری منزل پر سیڑ ھیوں سے جانا پڑا ، اسے
مزید غصہ آیا۔اوپر آفس پہنچے سیکریٹری نے اسے غصے میں دیکھا، جلدی سے اس کےلیے پانی لے آٸی۔ ۔وہ اٹھا ، پردے پیچھے کرنے لگا اور اس کو دور ایک بچہ دکھاٸی دیا ، جو ہاتھ پھیلاۓ مانگ رہا تھا ، اس
بچے کو دیکھ اس کو اس میں اپنی جھلک دکھاٸی دینے لگی، ایک دھندلا سا منظر اس کے دماغ پہ چھانے لگا۔۔وہ اس کا ماضی تھا ۔۔۔۔ وہ ماضی میں کھو سا گیا ۔۔۔ “شیرو بچے اٹھ جا ! ماں اسے اٹھا رہی تھی ، ابا تیرا صبح سے کھیتوں میں گیا ہوا ہے ،اٹھ جا تو بھی ۔۔”اچھا اماں جاتا ہوں ۔۔
سارا دن کھیتوں میں کام کر کے گھر پہنچتے ہی، اماں پرانے باسی ٹکڑوں کا حلوہ بنا کر دیتی تھی ،وہ حلوہ بڑا لزیذ ہوتا تھا ۔ماں بڑے پیار سے بنا کر دیتی تھی اور ساری تھکن ختم ہو جاتی تھی ۔۔ “ایک دفعہ ماں بہت بیمار پڑھ گٸی اور گھر میں کچھ کھانے کو نہیں تھا۔اچانک جیب میں ہاتھ ڈالا پانچ آنے نکل آٸے، تو اس کی آنکھوں میں خوشی کی چمک آگٸی ۔وہ آنکھیں جو ماں کی بیماری کی وجہ غم ذدہ تھیں ، اب ان ہی آنکھوں میں امید کی کرن نظر آنے لگی ۔ “بھوک سے برا حال تھا ، وہ چاٹ کے ٹھیلے کی طرف بھاگا ۔۔
بھیا ایک پلیٹ کتنی کی ہے؟ ” 2 آنے کی ہے، ٹھیلے والا بھیا بولا۔۔ اس نے سوچا ،تین آنے کی اماں کی دواٸی آجاۓ گی ۔۔اپنی جیب سے پیسے نکالنے ہی لگا تھا اور پیسے جیب میں نہیں تھے، ساری جیب الٹ پلٹ دی پر پیسے نہیں ملے ۔۔۔کہیں گِر گٸے تھے شاید ، بہت رونا آیا ۔پھر سارے راستے شام تک ڈھونڈتا رہا،لیکن نہیں ملے ۔۔ ” گھر گیا تو ماں موت کی کشمکش میں تھی ۔ماں زیادہ وقت جی نہ سکی اور ماں اللّہ کو پیاری ہو گٸ ۔۔ کٸی ، کٸی دن گھر میں فاقے رہے ۔۔۔۔
ماں کے مرنے بعد ابا بھی زیادہ وقت نہیں رہے میرے ساتھ۔ایک دن ابا بھی اس جہانِ فانی سے کوچ کر گۓ ۔۔ میں تو غم کی وجہ سے بہت نڈھال ہوگیا تھا، بھلا ہو امامِ مسجد کا انہوں نے ابا کے کفن دفن کا بندوبست کیا۔ ماں ،باپ کی اچانک موت کا صدمہ تھا مگر زندگی تھی ،جینا تو تھا۔ میں ایک دن شہر کی طرف روانہ ہو گیا ، وہاں پر ایک ہوٹل پر کام کرنے لگا ،ہوٹل کا مالک بہت اچھا تھا ،اس نے اپنےگھر میں ایک رہنے کےلیے کمرہ دیا۔
میں نے کتابیں آدھی قیمت پر لے لی اور میٹرک کا امتحان پراٸیویٹ دیا ۔دن کو کام اور رات کو پڑھاٸی کرتا تھا ۔۔میٹرک میں بورڈ میں پہلی پوزیشن لی اور اس طرح گورنمنٹ کی طرف سے وظیفہ ملا اور پڑھاٸی کا سارا خرچہ گورنمنٹ نے اٹھایا ۔۔۔۔۔ اچانک دروازےپر دستک ہوٸی تو دستک نے اسے ماضی سے حال کی طرف لا گھسیٹا ۔
۔سر آج جو میٹنگ تھی جن کے ساتھ انہوں نے کہا اب وہ کل ہوگی کوٸی ضروری کام پڑھ گیا ۔۔۔اوکے ۔۔اس نے سیکر یٹری کو کہا ۔پردے کے پیچھے لگتا تھا یہ سب منظر چل رہا تھا ۔اسے ماں کی بہت یاد آرہی تھی ۔ لیکن آج کسی کو اپنے والدین کی قدر ہی نہیں تھی ۔آج بوڑھے والدین جنہوں نے پال پوس کر بڑا کیا ہوتا ہے وہ فٹ پاتھ پر پڑے ہیں یا اولڈ ہاٶس میں۔۔
ان دنوں میں کتنا سکون تھا ۔تب ضرورت پوری کی جاتی تھی ، کوٸی خواہشات نہیں تھیں ۔خواہشوں کی بھیڑ میں انسان ، انسانیت تو بھول ہی گیا ہے ۔ انسان خواہشوں کے بہاٶ میں دن بہ دن بہتا ہی چلا جا رہا ہے ۔ آج کل کسی کو اتنی بھی فرصت نہیں کسی کو سلام دے سکے اور تو اور بوڑھے بیمار ماں ، باپ کے پاس دو منٹ بیٹھ سکے ۔اس وقت رشتوں کی قدر تھی لیکن آج پیسے کی ۔اس وقت اپنے سے کم تر ، حیثیت کی مدد کی جاتی تھی۔ لیکن آجکل اپنے سے نچلے طبقے کو معیوب سمجھا جاتا ہے ۔
اگر ہم خواہشوں کو اپنے حواسوں پر چھا جانے کے بجاۓ ،ان کو قابو کریں اور خواہشوں کی تکمیل کے بجاۓ ، صرف اپنی ضرورت پوری کرنے پر توجہ دیں ۔۔
“مال ودولت اکٹھی کرنے کے بجاۓ اس سے کسی ضرورت مند کی مدد کر دیں ۔۔جس سے اللّہ تعالی راضی ہوں گے ۔ہماری خواہشات اس رب کی ذات کے آگے ختم ہو جانی چاہیے ۔آج بھی ان دنوں جیسا سکون حاصل کیا جا سکتا ہے، اگر ہم خواہشات کا پیچھا کرنا چھوڑ دیں اور ماں ، باپ کی قدر کریں اور ان کی خدمت کریں………….