قدرت خدا کی
تحریر بقلم : نوشین اعوان
Thank you for reading this post, don't forget to subscribe and find best Urdu Reading Material at Caretofun.
Join Our Whatsapp Channel
Follow Our Facebook page
کبھی سوچا نہ تھا کہ زمین بھی خاموش ہوگی۔ آج ویران سڑکوں کی خاموشی سے لگتا ہے کہ زمین انسانوں سے اکتا گئی تھی۔ محض ایک شہر یا ایک ملک اس کی لپیٹ میں نہیں بلکہ پوری دنیا اس کی لپیٹ میں ہے۔ ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے ہر ایک کوہر ایک سے خطرہ ہے۔ زندگی اپنے اصل کی طرف لوٹ رہی ہے۔ مصنوعی زندگی نے اصل زندگی کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ انسان بھی اپنی بنائی چیزوں پہ قدرت کو بھول گیا تھا کیسے خدا نے صرف دنیا میں انسانی مخلوق ہی پیدا کی ہو اور باقی مخلوقات اپنے حق سے محروم ہوں۔
آج اکیسویں صدی میں ہوتے ہوئے اٹھارویں صدی میں جائیں گے سوچا نہ ےھا۔ پھر تاریخ نے خود کو دہرایا لوگ گھروں تک محدود ہوگئے انسان اس حد تک سوشل ہوگیا تھا کہ دنیا کی تو خبر تھی لیکن ایک گھر میں ساتھ رہتے لوگوں سے باخبر ہوگیا۔ آج دنیا کی رفتارکم ہوئی تو احساس ہوا کہ سچ میں انسان نے کائنات ساتھ زیادتی کر گیا۔ پہلے انسانوں کو انسانوں سے وقفہ چاہیے تھا اب کائنات کو انسانوں کی بڑھتی چہل پہل سے وقفہ چاہیے۔
کچھ قوانین لوگوں کے تھے اب کچھ قانون قدرت کے ہیں۔آج قدرت بتا رہی ہے قدرت کے لیے امیر غریب کچھ بھی نہیں۔ مخمل کے بستر پہ سونے والے سے لے کر فٹ پاتھ پہ سونے والے تک اس وباء سے محفوظ نہیں ہی۔ ابھی چند دن پہلے ہی زندگی کی رفتار بہت تیز تھی ہر کوئی زندگی کی دوڑ میں مصروف تھا پھر زندگی نے سب کو وقت دے دیا سڑکیں،شاپکنگ مالز، عبادت گاہیں سب بند۔
کچھ عرصہ پہلے کشمیر کے لیے چیخ و پکار کی جا رہی تھی اور دنیا خاموش تھی۔ کوئی سمجھے یا نہ سمجھے لیکن یہ قدرت نے انسانوں کو بتایا ہے سُپر پاور کے آگے بھی ایک پاور ہے اور اُس سپریم پاور کے آگے سُپر پاور بھی بے بس ہے۔ آج نہ چاہ کر بھی انسان سوچنے پر مجبور ہے کہ کوئی تو ہے جس کے ہاتھ میں یہ ساری گیم ہے۔ یہ گیم اس اللہ کی ہے اور اس وقت بڑے سے بڑا سائنسدان، اور بابا جی بے بس ہیں۔
جہاں ساری دنیا اس وباء سے لڑ رہی ہے وہیں ان سب میں کچھ لوگ وہ بھی ہیں جو اللہ پہ توقل کے نام پہ اپنی جہالت پھیلا رہے ہیں۔ اگر خدا صرف مسجدوں میں ہی بستا تو دلوں میں کیا رکھا تھا عبادت گاہوں کے دروازے بند ہوئے اللہ سے بات کرنے کے دروازے ابھی بھی کھلے ہیں اور شاید اللہ نے زمین کے خداؤں کو یہی بتانا تھا کہ تمام کائنات کی طاقت صرف اُسی کے پاس ہو اور انسان تو پیدا ہی بے بس کیا گیا ہے۔ جس خدا نے عقل و شعور دیا تھا انسان اُسے پہ فخر کیے بیٹھا تھا۔ آج ساری عقلیں سجدہ ریز ہیں ہم کچھ نہیں ہیں۔ جب خدا بلاتا رہا تب وقت نہیں تھا آج مسجدوں کے بند ہونے پہ اُن کو بھی اعتراض جنہوں نے جمعے اور عید کی نماز پہ پہ ہی مسجدوں کا رُخ کیا تھا۔ بے شک زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ خودکشی بھی حرام ہے۔ اس مہلک وباء میں مسجدوں میں ہجوم اکٹھا کرنا بھی کسی خودکش دھماکے سے کم نہیں۔
ہم نے چین کا مذاق بنایا آج چین ہماری مدد کو آرہا ہے
لوگوں کے خیال میں یہ وباء صرف حرام کھانے سے اور صرف غیر مسلموں پہ آئی پھر خود کو تسلی یوں دی کہ ہم تو مسلمان ہیں ہمیں کچھ نہیں ہوگا لیکن دیکھیں ملسمان بھی اس کی لپیٹ میں ہیں اب جو مسلمانوں نے دعاؤں کے لیے اور دروازے ڈھونڈ لیے تھے ان کو بھی نہیں خبر یہ “کرونا” کیا بلا ہے۔ موت پہ کسی کا اختیار نہیں لیکن ایسی موت سے اللہ بچائے۔
انسانیت سے بڑا کوئی مذہب نہیں اور آپ کا مذہب ہی آپ کو دوسروں کو تکلیف پہنچانے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس وقت سب کا درد ایک سا ہے خواہ وہ مسلم ہے یا غیر مسلم۔ انسانیت کا کسی مذہب یا مسلک سے واسط نہیں۔
مشکل کی اس گھڑی میں آج سب کا خدا ایک ہے۔
نوشین اعوان کی مزید تحاریر پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔