کتابیں علم کے حصول کےلئے نہیں نمبروں کے حصول کے لیے رہ گئی ہیں۔ ہمیں کتابوں سے محبت نہیں سکھائی گئی ہمیں نمبروں سے محبت سکھائی گئی ہے۔ تعلیم اور کتابیں پڑھنے کا مقصد صرف ایک اچھی نوکری حاصل کرنا ہے۔
جو کتابیں سلیبس کا حصہ ہیں وہ ہی پڑھ لی جائیں تو بڑی بات ہے۔ ہر انسان اپنے ماحول کو دیکھتا اور سیکھتا ہے۔ جب ہم نے اپنے اردگرد کتابیں صرف امتحان پاس کرنے کے لیے دیکھی ہوں ہمیں کتابوں سے محبت کیسے ہو جائے۔ اعلیٰ ڈگریاں لینے کے باوجود علم کا فقدان ہے اور ڈگریوں کی بھرمار ہے۔ کیونکہ ہم علم نہیں ڈگریاں بیچ رہے ہیں۔
لوگ علم کی نہیں اچھے مستقبل کی قیمت ادا کرتے ہیں کہ اس قیمت کا بدلہ مستقبل میں اچھی نوکری کی صورت میں ملے گا۔
جہاں لائبریریوں کی بجائے شاپنگ مالز، ریسٹورانٹس اور کیفیز کی تعداد زیادہ ہو وہاں وہی چیزیں فروغ پائیں گی جنہیں فوقیت دی جائے۔ اس لیے دماغ سکڑتے جارہے ہیں اور پیٹ بھرتے جارہے ہیں۔
علم کی قدر وقیمت کا اندازہ تب ہوتا ہے جب آپ نے زندگی کا ایک لمبہ عرصہ پڑھائی کے نام وقف کیا ہو اور بالآخر ایک دن احساس ہو آپ علم سے محروم ہیں آپ تو محض پاس ہونے کے لیے پڑھ رہے تھے جس کا علم سے کوئی تعلق نہیں۔
اگر پیسے کمانا صرف تعلیم سے ہی ممکن ہوتا تو ان پڑھ بزنس مین نہ ہوتے اور ڈگریوں والے ان کے ملازم نہ ہوتے۔ مہارت اور ذہن کے استعمال سے لوگ بزنس پہ مستفید ہیں۔
اگر صدیوں سے اب تک تعلیم کی صورت حال وہی ہے تو پھر نصاب میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ نصاب میں ایسی چیزیں شامل کی جائیں جو بچوں کے لیے دلچسپی کا باعث بنیں۔
ہم نے اپنے نصاب میں انگلش کو تو اہم ترین حصہ دے دیا مگر افسوس ہم اسلامیات سے زیادہ واقف نہیں۔ کیونکہ اسلامیات نے کونسا ہمیں فائدہ دینا ہے۔ سو ہمارے لئے اسلامیات اور تاریخ جیسے مضامین اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔ یاد رکھیں تاریخ میں جو شخصیات مثالیں قائم کر گئیں ہیں ان کا نام آج تک زندہ ہے۔
آج ہمیں کتابوں کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ نمبروں کے حصول کے لیے نہیں بلکہ خود کی شخصیت کو ابھارنے کے لیے۔ کسی ایک عظیم شخص نے کہا تھا کتابیں بُرے وقت کی ساتھی ہیں جو آپ کا اس وقت بھی ساتھ دیتی ہیں جب آپ بلکل تنہا ہوں۔ کتابوں پہ کی گئی انویسٹمنٹ آپ کی زندگی کی بہترین انویسٹمنٹ ہے۔
ذہنی نشوونما کے لیے ماحول بھی تعمیراتی ہونا چاہیے جس میں رہ کر صرف جسم نہیں روح بھی نشوونما پائے۔
اگر سڑکوں کی کنسٹرکشن کے علاؤہ ذہنی کنسٹرکشن کے لیے تعلیم کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے اس میں بہتری کی جائے تو ممکن ہے ہمارا ملک بھی ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو۔ تعلیم کو مشکل نہ بنایا جائے کہ انسان دیکھ کر ہی ہمت ہار جائے بلکہ تعلیم کی راہ میں آسانیاں پیدا کی جائیں۔