Mera Ideal story for unmarried girls

سارہ کو ٹین ایج سے ہی باڈی بلڈر ٹائپ کے لڑکے پسند تھے،سلمان خان بھی اسے بہت پسند تھا۔۔۔
اسے لگتا تھا ایسے مرد کسی بھی مشکل کا بآسانی مقابلہ کرسکتے ہیں۔۔۔اسی فینٹسی میں رہتے ہوئے کہ ایک باڈی بلڈر ہیرو آئے گا اور دس بارہ غنڈوں کو مار گرائے گا۔۔۔وہ بڑی ہوگئی،اپنے شریکِ حیات کے طور پر ایسا ہی آئیڈیل مرد اس کے ذہن میں آتا تھا۔۔۔
لیکن جب فواد کا رشتہ آیا تو وہ مایوس ہوئی تھی،وہ کافی دبلا پتلا عام سا خوش شکل نوجوان تھا۔۔۔۔
رشتہ چونکہ ہر لحاظ سے مناسب تھا تو گھر والوں نے رضامندی دینے میں دیر نہیں لگائی،اسکی رائے پوچھی گئی تو مشرقی بیٹی ک طرح اس نے فیصلہ ماں باپ پر چھوڑ دیا۔۔۔لیکن دل میں خلش رہ گئی،فواد اسکے آئیڈیل پر پورا نہیں اترتا تھا،لیکن بہت اچھا شوہر ثابت ہوا تھا۔۔فواد اندازہ نہیں لگا پایا تھا کہ سارہ اس کے ساتھ خوش ہے یا نہیں،کیونکہ اس نے کبھی اکتاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا تھا،لیکن جو گرم جوشی اور والہانہ پن وہ اپنی بیوی سے چاہتا تھا وہ اسکے رویے میں کبھی محسوس نہیں کرپایا تھا۔۔وہ جیسے بس یہ رشتہ نبھا رہی تھی۔۔۔
شادی کو چھ ماہ گزر گئے تھے،انکا رشتہ بہتری کی طرف گامزن تھا،ایسے میں فواد کا ایک کزن دوسرے شہر سے نوکری کے لئے آیا تو فواد نے اسے اپنے گھر ٹھہرنے کی دعوت دے دی،جب تک کہ اسکی رہائش کا بندوست کہیں اور نہیں ہوجاتا۔۔۔
منیب کو دیکھ کر سارہ کے دل کی خلش بڑھ گئی،وہ بالکل اس کے آئیڈیل کے جیسا تھا،حالانکہ وہ فواد کے ساتھ اب بہت خوش تھی،لیکن اپنی ادھوری خواہش کا ملال اسکے دل سے گیا نہیں تھا۔۔۔
آج وہ لوگ آؤٹنگ پر نکلے تھے۔۔فواد اصرار کرکے سارہ کو بھی ساتھ لے آیا تھا،وہ لوگ چہل قدمی کے ارادے سے کار سے نکلے،فواد کار پارک کرنے پارکنگ ایریا میں چلا گیا ،تبھی کہیں سے بائیک پر دو نامعلوم افراد نمودار ہوئے انھیں اپنی جانب بڑھتا دیکھ کر،منیب سارہ کو اکیلا چھوڑ کر الٹے قدموں بھاگ گیا اور اندھیرے میں کہیں غائب ہوگیا،فواد آیا تو اسلحہ بردار سارہ پر بندوق تانے کھڑا تھا،وہ تیزی سے اسکی جانب آیا تھا،اور اسکا ہاتھ تھام کر اسے اپنے پیچھے کرلیا تھا،دونوں کےموبائل فون اور سارہ کا زیور لے کر وہ فرار ہوگئے۔۔۔
اگلے دن منیب گھر آیا تو بہت شرمندہ تھا۔۔۔وہ بار بار سارہ سے معافی مانگ رہا تھا،لیکن سارہ بس مسکرائے جا رہی تھی۔۔۔وہ منیب کو نہیں بتا سکتی تھی کہ اسکی اس بزدلی نے سارہ کے دل میں لگی کتنی بڑی گرہ کھول دی۔۔۔
وہ جان گئی تھی کہ آئیڈیل مرد وہ ہوتا ہے،جو ہر مشکل ہر آزمائش میں کھڑا رہے،اسکا سامنا کرے،جو مشکل دیکھ کر بھاگ جائے وہ صرف بھگوڑا ہوتا ہے۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe and find best Urdu Reading Material at Caretofun.

Join Our Whatsapp Channel
Follow Our Facebook page

زوہیب کو پڑھی لکھی،دھیمے دھیمے مسکراتی،آہستہ آہستہ بولنے والی لڑکیاں اچھی لگتی تھیں۔۔بے جا فیشن،اور گلا پھاڑ پھاڑ کر بولنے اور ہنسنے والی لڑکیوں سے سخت چڑ ہوتی تھی اسے۔۔۔امی نے جب اسکی کزن نمرہ کے لئے اسکا رشتہ مانگنے کی بات کی تو اس نے صاف انکار کردیا”اسکی ہنسی دیکھی ہے امی آپ نے،ہنستی نہیں ہے حلق پھاڑ کر قہقہہ لگاتی ہے،اور مجھے ایسی لڑکیاں نہیں پسند مجھے دھیمے مزاج کی لڑکیاں اچھی لگتی ہیں”
وہ امی کے کہنے پر شادی میں آتو گیا تھا اب سخت کوفت زدہ بیٹھا تھا، دفعتاً اسکی نظر اس پر رکی تھی،ہنسی کیا تھا،جیسے دھیمے سے کہیں گھنٹیاں بجی ہوں،بات کرنے کا انداز کس قدر دلکش تھا،کس قدر ٹھہراؤ تھا اسکے لہجے میں۔۔
وہ جو ایک دن کی تقریب میں جانے کے لئے نہیں مان رہا تھا،اب تمام فنکشنز میں جانے کے لئے تیار بیٹھا تھا،ہر بار وہ پہلے سے ذیادہ دل کے قریب محسوس ہوتی تھی۔۔امی بہنوں نے بھی اسکی دلچسپی نوٹ کرلی۔۔ لڑکی کا بائیو ڈیٹا معلوم کیا گیا،پتا چلا اسکے کزن سے اس کی بات پکی ہوچکی ہے۔۔کئی دن افسردہ رہا۔۔بالآخر خاندان کے دباؤ میں آکر نمرہ کو اپنی دلہن بنا کر لےآیا،لیکن اسکا آئیڈیل اب بھی دل کے کسی کونے میں مقیم تھا۔۔۔ نمرہ اچھی بیوی ثابت ہوئی،لیکن اسکا زور زور سے بولنا اور ہنسنا اب بھی اسے نہیں بھاتا تھا،اور دو ،تین بچوں کے بعد تو اکثر چڑچڑی رہتی،بچے اپنے پیچھے بھگاتے تو غصہ کرتے ہوئے آواز اور بلند ہوجاتی۔۔۔
اس دن بھی وہ اسکے بچوں پر چیخنے سے تنگ آکر،غصہ کرتے ہوئے گھر سے باہر نکلا تو راستے میں اسکا کزن احمد مل گیا،کافی عرصے بعد ملاقات ہوئی تو وہ زبردستی اپنے گھر لے آیا۔۔
گھر میں داخل ہوتے ہی،ایک غصے سے چیختی آواز نے اسکا استقبال کیا۔۔”بد تمیز پھر دودھ گرادیا،سکون سے بیٹھ کر نہیں پی سکتے،پاگل کرکے رکھا ہوا ہے،گھر نہیں پاگل خانہ لگتا ہے یہ مجھے”۔۔۔
زوہیب کی سوالیہ نظریں دیکھ کر احمد جھینپی مسکراہٹ کے ساتھ بولا “کچھ نہیں یار بیگم ہے،بچے تنگ کرتے ہیں تو یوں ہی چڑچڑی ہوجاتی ہے،تم آؤ”
اور اندر قدم رکھتے ہی اس پر حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹا تھا،یہ تو وہی تھی،جسکی سریلی گھنٹیوں جیسی آواز اور مدھر ہنسی کا وہ آج تک نمرہ سے موازنہ کرتا آرہا تھا۔۔۔۔
واپسی پر اسکے ہاتھ میں گلاب کے پھول بھی تھے،کیونکہ اسے نمرہ کو منانا بھی تھا ابھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ان کہانیوں کے بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے،کہ مرد اور عورتیں دونوں آئیڈیلزم سے نکلیں،انسان کے اندر موجود اچھائیوں اور خوبیوں کو پہچانیں۔۔اسکی خامیوں کو درگزر کریں۔کیونکہ ہم بحیثیت انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہیں۔۔)

سعدی سمران

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top