جب میں نے اس دنیا کے آغوش میں قدم رکھا ، تو سب سے پہلے دنیا میں آتے ہی میری سماعتوں سے نرس کی آواز ٹکرائ!!۔۔۔ جو گھر والوں کو مبارک باد کچھ اسطرح پیش کر رہی تھی کہ: مبارک ہو “Baby boy” ہوا ہے۔۔۔۔
یہ لفظ سنتے ہی میری عقل کے گھوڑوں نے دوڑ لگائ ، اور مجھے اس حقیقت سے آشنا کیا کہ ارے میں تو “پاکستان” میں پیدا ہوا ہوں!!!۔۔۔۔ “جہاں ملی جلی زبان بولی جاتی ہے”۔۔۔۔۔۔ غرض یونہی لیل و نہار گزرتے گئے ۔۔۔ہم بڑے ہوتے گئے ۔۔۔۔
“معاشی تنگی کے باعث ہمارا داخلہ سرکاری اسکول میں کروایا گیا۔ جہاں پڑھائ کے نام پر مذاق اپنے عروج پر دکھتا ہے ۔۔۔اور چھٹی کلاس میں پہنچنے پر بھی (اے فار ایپل۔اور بی فار بنانا)… جتنی ہی انگریزی آسکتی ہے” ۔۔۔۔
خیر جیسے تیسے جوڑ توڑ کر کے ، اللہ اللہ کر کے میٹرک پاس کیا!!!! ویسے کہنے کو انگریزی تو میں بھی بول لیتا تھا جیسے۔۔۔۔ “آہ!! امی میرے stomach میں pain ہورہا ہے”۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
لیکن روانی سے انگریزی بولنے میں اٹک جاتا تھا!!!۔۔۔ جو کہ میری زندگی کا سب سے بڑا غم بن گیا تھا!! “ویسے یہ میرے عام مشاہدے کی بات تھی کہ بس والے ، رکشے والے ، کلرک ، جمعدار وغیرہ ہر کوئ ہی تھوڑی بہت انگریزی تو جانتا ہی تھا” ۔۔۔۔
اور بولنے میں فخر بھی محسوس کرتا تھا!!۔۔ جیسے ایک بار جس بس میں میں سوار ہوا ، اسکے کنڈیکٹر نے ڈرائیور کو چیخ کر بولا!! ۔۔۔
“ارے تم کو بولا ہم نے کہ ادھر stop کرو!!” ۔۔۔ تم نے پھر بھی stop نہیں کیا!!۔۔۔ “تم بھی Amazing ہے یار!!” اسکے علاوہ اک روز کی بات ہے۔۔۔
ایک کام والی ماسی جو ہمارے پڑوس میں کام کرتی تھی ۔۔۔۔ وہ اپنا بچہ ساتھ لائ تھی جو بار بار اسے تنگ کررہا تھا اور وہ اسے جھڑک رہی تھی۔۔۔ shut up ہوجاو ۔۔۔۔”shut up کیوں نہیں ہورہے”!!۔۔۔۔ “میرے تو گویا ہنس ہنس کے پیٹ میں درد ہوگیا ۔۔۔کہ یہ بھی بے چاری بیمارئ انگریزی سے دوچار ہے”۔۔۔۔
اس وقت مجھے بےساختہ کچھ اشعار یاد آئے : “سنو اک راز فخر سے ہم فاش کرتے ہیں” “کبھی ہم منہ دھوتے تھے مگر اب واش کرتے ہیں”۔۔۔ “کبھی تو درد ہوتا تھا مگر اب پین ہوتا ہے” “پڑھائ کی جگہ پر اب تو نالج گین ہوتا ہے”۔۔۔ ہاں لیکن اس بات کا مجھے بارہا افسوس تھا !!! کہ میری انگریزی کمزور تھی۔
کیونکہ میرے کزنز پرائیوٹ اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ اور انہیں انگریزی کافی اچھی آتی تھی ۔ جب کبھی کہیں انکا سامنا کرنا پڑتا تو میں احساس کمتری کا شکار ہوجاتا ، اور شرم سے پانی پانی ہوجاتا ۔۔۔حالانکہ اس میں میرا کوئ قصور نہ تھا!!۔۔۔۔۔۔
لیکن باوجود اسکے جب انکی والدہ فخر سے بولتی کہ میرے بیٹے کو تو انگریزی آتی ہے!!۔۔۔۔ ارے اسکو بھی کوئ دوچار مہینے میں فر فر انگریزی بولنے کا کورس کروادو!! ۔۔۔۔
انگریزی کے بغیر چارہ نہیں آجکل!!!۔۔۔۔۔ اس وقت میرے دل پر تیر چل جاتے ۔۔۔۔۔۔ کہ واللہ ہم کس طرف جارہے ہیں؟؟؟ “ہمارے معاشرے میں درحقیقت عقل کا معیار چاروناچار انگریزی زبان بن چکا ہے” ۔۔۔۔
“جسکی جتنی انگریزی اچھی وہ اتنا ذہین”۔۔۔ اسی لیے ہر شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ انگریزی بولے جس حد تک بھی بول سکے، اور اگر اسکے لیے اسے ۔۔۔
“اردو کا جنازہ نکالنا پڑے تو وہ بھی نکال دے”۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ آجکل تمام والدین چاہتے ہیں کہ انکے بچے “english talk” کریں ۔۔۔۔ بیٹا: dont touch Come here Sit here Eat this silently etc etc یہ وہ لفظ ہیں جو تمام والدین کے پسندیدہ ہیں۔ جن کے بغیر وہ نوالہ نہیں توڑتے۔۔ اور بچوں کو بھی سکھاتے ہیں کہ دوچار لوگوں کو دیکھ کر انگریزی بولا کرو۔۔۔۔ “اس سے انکی عزت میں اضافہ ہوگا”۔۔۔۔ “دراصل ہم انگریزی کے بلکل بھی خلاف نہیں ہیں ۔ انگریزی بین الاقوامی زبان ہے ، اور ہماری ضرورت بھی ہے” ۔ لیکن ہمارے معاشرے میں انگریزی کی بے جا راہ روی اور ہماری قومی زبان میں اسکی ملاوٹ نے ہماری اپنی “اردو زبان” کی تازگی اور خوبصورتی کو مندمل کردیا ہے!!۔۔۔۔۔
“اور سونے پہ سہاگہ ایجوکیشن سسٹم کا سب سے بڑا فالٹ یہ ہے کی نہ ہی ہمیں معیاری اردو پڑھائ جاتی ہے ، اور نہ ہی معیاری انگریزی!!” ۔۔۔ حتی کہ بارہ سال تک انگریزی کو بطور کمپلسری پڑھنے کے باوجود بھی ہمیں انگریزی سیکھنے کے لیے کوچنگ سینٹر کا رخ کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔
علاوہ ازین ہم ملی جلی زبان بولتے ہیں۔۔۔ اور اپنی شناخت خود اپنے ہاتھوں سے بڑے ہی فخر سے گنوا رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ قومی زبان ہمارا سرمایہ ہے ، ہماری شناخت ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ ہم نے اسے پس پشت ڈال دیا ہے!!۔۔۔۔ جنہیں اپنی انگریزی پر بڑا فخر رہا ہے ۔۔۔اور جو سر اٹھا کر یہ کہتے ہیں کہ ہمیں اردو سبجیکٹ پسند نہیں ہے ۔ انکے لیے عرض کرتے چلیں۔۔۔۔ کہ منہ ٹیڑھا کرکے انگریزی بولنا اہم نہین ہے ، بلکہ اپنی روایات اور اقدار کو قائم رکھنا بھی لازم ہے۔۔۔۔
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو انگریزی تو بولنا اچھی طرح جانتے ہیں۔ حتی کہ بیرون ملک کی اعلی یونیورسٹی سے اعلی ڈگری حاصل کرکے آتے ہیں ۔ اور پھر ہمارے پیارے وطن میں آکر اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو سے ملک پر حکمرانی کا دعوہ کرتے ہیں!!۔۔۔۔
ان نادانوں کے لیے عرض کیا ہے: ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو۔۔۔۔ بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو۔۔۔۔ المختصر “جنہوں نے اپنی قومی زبان کا حق ادا نہ کیا!! وہ کسی اور زبان کا کیا کرینگے”۔۔۔۔!!