Yak Tarfa Ishq Mera By Sadi Abaan Urdu Afsana
Yak Tarfa Ishq Mera Sadi Abaan Urdu Afsana . This is about Interesting topic you will love to read, scroll down and read the complete novel. This is about the daughters and some of the girls who commit suicide and those who think wrong and watch things in wrong way.
Thank you for reading this post, don't forget to subscribe and find best Urdu Reading Material at Caretofun.
Join Our Whatsapp Channel
Follow Our Facebook page
Yak Tarfa Ishq Mera Read Online
Sadi Abaan is Talented writer from Sargodha, Pakistan. You will experience in this complete novel. She has covered a very beautiful topic in this Novel for readers. Sadi Abaan is rising talent and a new writer from Pakistan. Ana Ilyas and Umera Ahmed is her inspirations. She has been writing for a long time but only for herself. However this one is open for everyone to read.
Yak Tarfa Ishq Mera By Sadi Abaan
Urdu Complete Novel
الوینہ! اٹھ جا میرا پتر ، نماز کے لیے لیٹ ہورہی ہے میرا بچہ ، ثوبانہ بیگم نے الوینہ کے چہرے سے کمبل ہٹاتے ہوئے پیار سے کہا۔
جی دادی ماں ، اٹھ رہی ہوں ، وہ کروٹ بدل گئی ، ثوبانہ بیگم واشروم میں گھس گئی وضو کرنے کے لیے ، جب وضو کرکے واپس آئی تو ابھی تک الوینہ کو سوتے ہوۓ پایا ۔
الوینہ ! اٹھ بھی جاؤ نماز قضاء ہوجائے گی ، اس دفعہ ثوبانہ قدرے غصے سے بولی ۔
الوینہ انگڑائی لیتی اٹھ بیٹھی ، بیڈ کے نیچے سے سلیپر ڈھونڈ کے اس نے پاؤں میں پہنے ، اور وضو کرنے واشروم میں چلی گئی ۔
نماز کے بعد الوینہ نے دادی ماں کے ساتھ مل کے قرآن پاک پڑھا ، اور پھر اس نے لحاف لپیٹ کے الماری میں رکھے ، کمرے کی سیٹنگ کرنے کے بعد وہ کھڑکی کی جانب بڑھی جو باہر کی جانب کھلتی تھی ، کھڑکی کے پٹ وا کرتے ہی ، ہوا کا ایک یکلخت جھونکا اس کے چہرے سے ٹکرایا۔
دسمبر کا مہینہ تھا ، باہر بہت دھند تھی ، ہوا کی ٹھنڈک سانسوں میں اتارنے کے بعد الوینہ نے کھڑکی کے پٹ مقفل کردیے اور کمرے سے باہر نکل گئی ۔
کمرے سے نکل کے الوینہ سیدھا کزنز کے روم کی جانب بڑھی ، اس نے دستک دینا چاہی پر دروازہ ان لاک تھا جس کے باعث وہ اندر چلی گئی ۔
مسفرہ تاربہ اٹھ جاؤ ، آپ لوگوں نے کالج نہیں جانا کیا ؟ الوینہ نے تاربہ کے منہ سے لحاف کھینچتے ہوئے پوچھا۔
آں ہاں ! نہیں اٹھنا ابھی میں نے ، تاربہ نیند سے بوجھل آواز میں بولی اور کروٹ بدل گئی ۔
کیوں نہیں اٹھنا بھئی ؟ بہت چھٹیاں کرتی ہو تم لوگ اٹھ جاؤ جلدی سے شاباش ، اس نے پھر لحاف کھینچا۔
یار ہم نہیں اٹھ رہے تو بس نہیں اٹھ رہے ، رات ہم نے دو موویز دیکھی ہیں ، پھر سوئے ہیں اب موڈ نہیں ہے اٹھنے کا ، تو بس نہیں ہے تم کیوں بے وجہ ضد کر رہی ہو ، اس دفعہ مستبشرہ تھی جو قدرے کرخت لہجے میں بولی ، الوینہ اس کی بات کا برا منائے بغیر چپ چاپ کمرے سے نکل گئی کیونکہ اسے پتہ تھا کہ اس نے ناشتہ بھی بنانا ہے دادی ماں کے لیے ۔
دادی ماں ناشتہ کرلیں ، آپ کے لیے ناشتہ بنا کے لائی ہوں ، الوینہ نے ٹرے دادی ماں کے سامنے رکھتے ہوئے شائستگی سے کہا۔
ماشاءاللہ ! میری بچی بہت سلجھی ہوئی ہے ، سارا گھر تو تم نے سنبھالا ہوا ہے ، یہ ماں بیٹیاں تو بس بیٹھ کے ٹھونستی ہیں ، اب اٹھی کے نہیں یہ تاربہ لوگ ، ثوبانہ نے غصے سے پوچھا۔
نہیں دادی ماں میں اٹھانے گئی تھی پر انہوں نے کہا ان کا فلحال موڈ نہیں اٹھنے کا ، رات فلم دیکھتی رہی وہ اس لیے ، الوینہ نے آہستگی سے کہا۔
ہونہہ ! ان کمبختوں نے بس فلمیں ہی دیکھنی ہیں ، ثوبانہ نے منہ بنایا۔
چھوڑیں ناں دادی ماں ان کی اپنی زندگی ہے ، آپ ہلکان کیوں کرتی ہیں خود کو ، الوینہ نے بات ختم کرنا چاہی۔
اچھا چھوڑ ، آ پتر توں بھی ناشتہ کرلے ، ثوبانہ نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
میں بعد میں کرلوں گی دادی ماں ، مجھے ابھی تایا ابو اور انزال کے لیے ناشتہ بنانا ہے ، کہتی ہوئی وہ مڑی ہی تھی جب ثوبانہ کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔
رک ! بیٹھ ادھر ، پہلے ناشتہ کر ، وہ تیری ذمہ داری نہیں ہیں ، ثوبانہ نے غصے سے کہا اور الوینہ کا بازو پکڑ کے اسے بیٹھایا۔
دو چار نوالے لیتی وہ اٹھ کے چلی گئی ، کیونکہ وہ جانتی تھی کہ زرا سی دیر ہوئی تو تزکیہ تائی اسے خوب سنائے گی ۔
السلام علیکم تایا ابو ، الوینہ نے ڈائننگ ٹیبل پر ناشتے کے لوازمات رکھتے ہوئے کہا۔
واعلیکم السلام کیسی ہے میری بیٹی ؟ توثیق چودھری نے پیار سے پوچھا ، جس پر تزکیہ بیگم نے منہ بنایا۔
میں ٹھیک ہوں تایا ابو ، کہتی ہوئی الوینہ مڑی ہی تھی کہ تایا ابو کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی ، تاربہ لوگ نہیں اٹھی ابھی ، اور یہ انزال کدھر ہے ؟ اماں بھی نہیں آئی یہ ڈائننگ ٹیبل اس قدر خالی کیوں ہے ؟ انہوں نے درشتگی سے پوچھا۔
میں آگیا ڈیڈ ! پریشان کیوں ہورہے ہیں ، اور وہ رہی آپ کی چشم نور بیٹیاں ، انزال نے سامنے آتی تاربہ کی جانب انگلی سے اشارہ کیا ، جس کے دائیں بائیں مسفرہ اور مستبشرہ بھی تھی ، سب ناشتہ کرنے میں مشغول ہوگئے ، جبکہ الوینہ کچن کی جانب بڑھ گئی۔
^•^•^•^•^•^•^•^ •^
ثوبانہ بیگم کے دو بیٹے تھے ، بڑا توثیق جس کی تین بیٹیاں مسفرہ مستبشرہ اور تاربہ ، اور ایک بیٹا تھا انزال ، جبکہ چھوٹا بیٹا توفیق جس کی ایک ہی بیٹی تھی الوینہ ، توفیق اور ان کی بیوی ثیبہ کا ایک کار ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا تھا ، تب الوینہ ایک سال کی تھی اور ان کے ہمراہ تھی ، لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے اسے صحیح سلامت بچالیا تھا ، ثوبانہ بیگم نے اسے بڑے پیار سے پالا تھا ، الوینہ نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی ، اس کے بعد تزکیہ بیگم نے کہا کہ ہمارے اپنے بچے ہیں ، ان کی تعلیم کا بہت خرچ ہے ، توثیق کی تنخواہ اتنی نہیں ہے کہ دوسروں کی اولادوں کو بھی پڑھائے ، اور گھر بھی چلائے ، ثوبانہ بیگم نے کافی اصرار کیا مگر الوینہ نے انہیں یہ کہہ کر منع کردیا کہ وہ آگے نہیں پڑھنا چاہتی وہ ضد مت کریں ، الوینہ دل و جان سے گھر کے سارے کام کرتی تھی ، لیکن تزکیہ بیگم پھر بھی گاہے بگاہے اس کی بے عزتی کرلیتی تھی ، جو الوینہ ثوبانہ بیگم سے چھپا لیتی تھی کہ پھر وہ تزکیہ سے لڑ پڑتی تھی ۔
^•^•^•^•^•^•^
ہائے گرلز کیا ہورہا ہے ؟ الوینہ عشاء کی نماز سے فارغ ہوتے ہی تاربہ لوگوں کے پاس چلی آئی ۔
انزال کی برتھ ڈے ہے بس اسی کی تیاری کی پلاننگ کررہے ہیں ، تاربہ نے گفٹ پیک کرتے ہوئے کہا۔
اوہ میں ہیلپ کروا دوں کچھ ، الوینہ خوشی سے بولی ۔
کیا کر سکتی ہو تم ، تمہیں کیا پتہ ہوگا پارٹی کے متعلق مستبشرہ طنز سے بولی۔
ویسے بھی الوینہ آپی ، انزال بھائی آپ سے متاثر نہیں ہونے والے جتنا مرضی بھاگ لو ان کے پیچھے ، مسفرہ اس کے پاس آکر گویا ہوئی۔
میری محبت رائیگاں نہیں جائے گی مجھے یقین ہے ، الوینہ لہجے میں محبت سما کر بولی ۔
او ہیلو مس ۔۔۔ایسے خواب بھی مت دیکھنا کیوں کہ ہم نے اپنے بھائی کے لیے تم جیسی دلہن تو بلکل نہیں سوچی ، تاربہ نے ہاتھ لہرا کر کہا۔
الوینہ کا دل دکھا ، وہ وہاں سے چلی گئی۔
اوئے ! ویسے الوینہ خوبصورت تو ہے ، یہ بات تو تم نے غلط کی تاربہ ، وہ انزال کے ساتھ جچے گی بھی ، الوینہ کے جاتے ہی مستبشرہ نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔
ہمممم۔۔۔۔۔ کبھی انزال سے پوچھو اس کی ڈیمانڈ یہ گھریلو لڑکی ہو نہیں سکتی ، اس کی سوچ متاع حیات کے حوالے سے ساتویں آسمان پہ جا پہنچتی ہے ، اور تم اس کی بات کرتی ہو ، ہونہہ ! تاربہ نے تیور بگاڑتے ہوئے کہا۔
اچھا چھوڑو چلو ہم انزال کی سرپرائز پارٹی پلان کرتے ہیں ، مسفرہ نے بات تبدیل کی کیونکہ اسے الوینہ سے انسیت تھی وہ اس کے خلاف ذیادہ نہیں سن سکتی تھی ۔
ہممم یہ چیز میرے عزیز ، گڈ آئیڈیا تاربہ گفٹ شیٹ اٹھاتے ہوئے بولی۔
الوینہ اپنے کمرے میں بوجھل قدموں سے آئی ، اور بیڈ پر نیم دراز ہوگئی ، ثوبانہ بیگم خراٹے لے رہی تھی ، الوینہ چھت کو گھورتے ہوئے بے آواز رونے لگی۔
اللّٰہ پاک آپ نے مجھ سے میرے ماں باپ کو لے لیا ، میں پڑھنا چاہتی تھی ، میں نہیں پڑھ سکی ، میں نے تیری رضا کے آگے سر تسلیم خم کیا ، میں سارا دن کام کرتی ہوں ، سب مجھے ڈانٹتے ہیں پھر بھی میں چپ رہتی ہوں ، اللّٰہ توں جانتا ہے ناں میں انزال سے کتنی محبت کرتی ہوں ، پر تاربہ آپی کہتی ہیں میں انزال کے معیار کی نہیں ہوں ، اللّٰہ مجھ میں کیا کمی ہے ، کیا میں خوبصورت نہیں ہوں ؟ سلجھی ہوئی نہیں ہوں ، آخر کیوں میں اس کے لیے قابل نفرت ہوں ، میں اس کے نزدیک بھی جاؤں تو وہ دور چلا جاتا ہے ، جہاں میں جا کر بیٹھوں ، وہاں سے وہ اٹھ کے چلا جاتا ہے ، اللّٰہ توں تو میرا دوست ہے ناں ، میرے درد سے واقف ہے ، میرے دکھ کی کیفیت کو سمجھتا ہے ، توں انزال کے دل میں میری محبت پیدا کر ، جب انزال راضی ہوجائے گا ، تو پھر باقی خود ہی مان جائیں گے ، اور دادی تو چاہتی بھی یہی ہے کہ میں انزال کی دلہن بنوں ، روتے روتے اس کی ہچکی بندھ گئی ، الوینہ پر نیند کی دیوی مہربان ہوگئی ، شاید اللّٰہ اسے اور دکھ میں نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔
^•^•^•^•^•^•^• ^•^
آج صبح ہی صبح گھر میں انزال کے برتھ ڈے کو لے کر گہما گہمی تھی ، پارٹی کی تیاریاں عروج پر تھیں ، الوینہ ہر کام بھاگ بھاگ کے سرانجام دے رہی تھی ، اور دیتی بھی کیوں ناں ، آخر پارٹی تھی کس کی انزال کی ، اس کے پرنس کی ، اس کی پہلی اور آخری محبت کی ، یا شاید لفظ محبت بہت چھوٹا تھا ، ہاں وہ تو عشق تھا اس کا۔
وہ عجلت میں ٹرے لیے بھاگتی ہوئی باورچی خانے کی جانب بڑھ رہی تھی جب وہ اچانک کسی سے ٹکرائی مٹروں سے بھری ٹرے سمیت وہ نیچے گری ، اندھی ہو دیکھ کے نہیں چل سکتی انزال کی مضبوط مگر پرکشش آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی ۔
سوری ۔۔۔۔ الوینہ کے منہ سے دبی دبی آواز نکلی ، انزال رکا نہیں چہرے پہ بے پناہ غصے کے تاثرات لیے وہ آگے بڑھ گیا ۔
انزال کا ہر بار کا اس قدر برا رویہ الوینہ کے دل کو پاش پاش کر دیتا تھا ۔
آنکھوں میں نمی لیے وہ ہر طرف پھیلے مٹر کے دانے چن کے ٹرے میں رکھنے لگی ۔
کہاں جارہی ہو الوینہ ۔۔۔؟ الوینہ جو چادر لیے باہر نکل رہی تھی سے مسفرہ نے پوچھا ۔
کہیں نہیں بس بازار تک جارہی تھی تھوڑا کام تھا مجھے کہتی وہ مڑی ۔
انزال بھائی کے لیے گفٹ لینے جارہی ہو ناں ؟ مسفرہ نے بھنویں اچکاتے ہوئے پوچھا ۔
ہمممم ۔۔۔۔ ہاں پر تمہیں کس نے بتایا الوینہ نے پوچھا ۔
بس مجھے پتہ ہے کیونکہ تم جیسی دکھی آتما خود کے لیے تو کچھ لے گی نہیں مسفرہ نے تیور بیگاڑے ۔
الوینہ چپ سی ہوگئی اور دروازے کی جانب بڑھی ۔
میں ساتھ چلوں الوینہ کے قدم مسفرہ کی آواز پہ رکے ۔
جیسے مرضی ہے آنا چاہو تو آجاؤ الوینہ نے شائستگی سے کہا ۔
اوکے پھر دو منٹ رکو میں آتی ہوں بیگ لے کر مسفرہ کمرے کی جانب بھاگی ۔
الوینہ وہیں اس کا انتظار کرنے لگی ۔
دو منٹ بعد مسفرہ وہاں موجود تھی وہ دونوں بازار کے لیے نکل گئی ۔
انزال کی برتھ ڈے پارٹی نہایت دھوم دھام سے انجام تک پہنچی ۔
الوینہ کو اسے گفٹ تو دور اس کے قریب جانے کا موقع ہی نا مل سکا ۔
وہ پریشان سی اپنے کمرے میں بیٹھی تھی ۔
الوینہ کیا بات ہے میرا پتر ؟ توں اتنی پریشان کیوں ہے ، ثوبانہ نے پیار سے پوچھا ۔
دادی ماں آپ کو تو پتہ ہے ناں کہ میں انزال کے لیے گفٹ لے کر آئی تھی پر مجھے اسے دینے کا موقع ہی نہیں مل سکا وہ مضطرب سی گویا ہوئی ۔
لے اتنی سی بات پہ میری گڑیا پریشان ہے ، ایسا کر ابھی وہ کمرے میں ہے اسے جاکر دے آ ، ثوبانہ نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا ۔
پر دادی ماں اتنی رات میں جاؤں اچھا نہیں لگے گا ناں ، وہ چہرے پہ جہاں بھر کی معصومیت لیے بولی ۔
ارے کیوں نہیں لگے گا اچھا ، اور صبح تک تو بات پرانی ہوجائے گی ناں ، اور تجھے رات بھر نیند بھی نہیں آئے گی ، جا شاباش دے کر آ ثوبانہ نے اسے کھینچتے ہوئے اٹھایا ۔
کچھ پل بعد وہ انزال کے روم کے سامنے کھڑی تھی اس سوچ میں محو کے شاید وہ برا مان جائے ۔
آخر دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے دروازے پہ دستک دی ۔
اف ۔۔۔ اس ٹائم کون آگیا انزال جو گفٹ پیک کھولنے میں مصروف تھا بیزارگی سے اٹھا اور دروازہ کھولا ۔
تم ۔۔۔۔۔ اس ٹائم ۔۔۔۔۔ یہاں ۔۔۔۔ خیریت تھی ۔۔۔۔ انزال نے حیرانگی ظاہر کی ۔
وہ ۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔ یہ ۔۔۔۔ گفٹ دینے ۔۔۔۔ آئی تھی ۔۔۔۔ وہ خشک ہوتے لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولی لفظ اس کی زبان سے بمشکل ادا ہوئے ۔
ہاہاہاہا ۔۔۔۔ واہ واہ کزن کمال ۔۔۔۔۔ تب نہیں دے سکتی تھی اتنا خاص گفٹ تھا کیا ۔۔۔؟ وہ ہاتھ لہراتے ہوئے طنزاً ہنسی ہنسا ۔
تب موقع نہیں مل سکا وہ دھیمے لہجے میں بولی ۔
ہمممم ۔۔۔۔۔ لاؤ رکھ لیتا ہوں تمہارا دل نہیں توڑتا پر ۔۔۔۔ ایک بات اپنے دماغ میں بیٹھا لو کہ تم چاہے لاکھ کوششیں کر لو میڈم الوینہ انزال توثیق تمہارا نہیں ہونے والا ۔۔۔ انزال نے انگلی اس کے ماتھے پہ رکھ کے پیچھے دھکیلتے ہوئے کہا ۔
پر انزال میں آپ سے محبت کرتی ہوں وہ گلوگیر لہجے میں بولی ۔
پر میں تو نہیں کرتا ناں اور اگر کرتا ہوتا تو آج تمہیں بتانے کی ضرورت نہ پڑتی کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو ۔۔۔ وہ بے رخی سے بولا ۔
انزال آپ پلیز ایک بار میری محبت پر یقین تو کر کے دیکھیں وہ بے بسی سے بولی ۔
مجھے نہیں کرنا یقین ۔۔۔ اور تم سے محبت اور وہ بھی انزال توثیق کرے ۔۔۔ مائی فٹ اینڈ ناؤ گٹ آؤٹ فرام ہئیر اینڈ لے جاؤ یہ اپنا گفٹ بھی انزال گفٹ پیک اس کے منہ پہ مارتا دروازہ بند کرگیا ۔
نمی الوینہ کی آنکھوں میں اتر آئی وہ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ زینے اترتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی ۔
آنسو صاف کرتی وہ کمرے میں داخل ہوئی ۔
کیا ہوا یہ گفٹ یونہی لے کر آگئی تم ۔۔۔۔ خیریت ہے ناں ثوبانہ پریشان ہوئی ۔
جی دادی ماں سب خیریت ہے وہ سوگئے تھے شاید اس لیے دروازہ نہیں کھولا اور آپ ابھی تک سوئی نہیں ؟ وہ خود پر ضبط پاکر بولی ۔
تیرا انتظار کر رہی تھی لے خیر صبح اٹھ جائے گا تب دے دینا ، اب سو جا میری گڑیا ثوبانہ نے اس کا گال تھپتھپایا اور لیٹ گئی ۔
دادی ماں آپ کہہ رہی تھی ناں کہ اب نہ گئی تو مجھے نیند نہیں آئے گی ، کوئی مجھ سے اب پوچھے کہ اب میں کیسے سو پاؤں گی ، الوینہ چھت کو گھورتے ہوئے دل ہی دل میں بولی دو آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کے گالوں پہ بہے ۔
^•^•^•^•^•^•^•^ •^•^
انزال ۔۔۔۔۔۔ وہ عجلت میں بیرونی گیٹ کی جانب بڑھ رہا تھا جب اس کی سماعت سے ثوبانہ کی آواز ٹکرائی ۔
جی دادی ۔۔۔۔ وہ مڑا اور لان کی جانب بڑھا ۔
کیا بات ہے کوئی کام تھا جو مجھے بلایا وہ ان کے پاس بیٹھتے ہوئے بولا ۔
ہاں تجھ سے بات کرنی تھی۔
جی بتائیں ۔۔۔۔ انزال نے اپنی توجہ دادی کی جانب مبذول کی ۔
بیٹا تم کسی لڑکی سے محبت کرتے ہو ؟ ثوبانہ نے شائستگی سے پوچھا ۔
نہیں تو دادی ماں آپ سے کس نے کہا وہ ہونٹوں پہ مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے بولا۔
بس مجھے ایسے لگا ۔۔۔ ثوبانہ نے کہا۔
ہممم ۔۔۔۔ بس یہی بات تھی تو اب میں جاؤں ؟ اس نے بھنویں اچکائے۔
نہیں نہیں بیٹھو میں نے ابھی اصل بات تو کی ہی نہیں ہے ، ثوبانہ نے ہاتھ سے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔
جی ۔۔۔۔ کہیں وہ دوبارہ بیٹھتے ہوئے بولا۔
تمہیں اس معصوم کی آنکھوں میں نمی نظر نہیں آتی ، انزال تمہیں اس کی محبت نظر نہیں آتی ، کیوں اس پہ ظلم کر رہے ہو ، کیوں آخر کیوں ۔۔۔۔؟ کیوں کرتے ہو اسے نظر انداز ثوبانہ آنکھوں میں اداسی بھر کے بولی ۔
دادی میں نے تو اسے نہیں کہا تھا کہ مجھ سے محبت کرے وہ ، میرا اس میں کیا قصور ہے ؟ یہ جذبہ تب اچھا لگتا ہے جب دو طرفہ ہو ، مجھے نہیں ہے اس سے محبت ، اور سب سے بڑھ کے میری امی کو ہی نہیں پسند وہ ، میں معذرت چاہتا ہوں ، انزال کہتا اٹھنے لگا ۔
انزال وہ مر جائے گی ، اپنی دادی کے لیے ہی اسے اپنالو ، ثوبانہ نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے ۔
ارے دادی یہ کیا کر رہی ہیں آپ ، مجھے گناہگار تو مت کریں ، خیر بتائیں میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں ، اس نے دادی کے ہاتھ تھامتے ہوئے کہا ۔
اس سے نکاح کرلو ثوبانہ نے کہا ۔
دادی ۔۔۔۔ یہ نہیں ہو سکتا امی آسمان سر پہ اٹھا لے گی ، انزال عجلت میں بولا ۔
تیری اماں کو نکاح کا پتہ چلے گا تب ناں ، ثوبانہ لاپرواہی سے بولی ۔
کیسے پتہ نہیں چلے گا ، چھپائیں گی ان سے ؟ تو وہ میری شادی کریں گی تب کیا کریں گی آپ ، انزال نے آنکھیں گھماتے ہوئے پوچھا۔
یہ توں مجھ پہ چھوڑ دے ، ثوبانہ دو ٹوک انداز میں بولی۔
ٹھیک ہے پھر بعد میں جو ہوگا اس کی زمہ دار آپ ہوں گی ، میں نہیں ۔۔۔۔۔ وہ لاپرواہی سے بولا ۔
ٹھیک ہے میں ہی زمہ دار ، اور آج ہی نکاح ہوگا تم دونوں کا ، شام تک تیار رہنا ثوبانہ اپنا فیصلہ سناتی اٹھ کھڑی ہوئی ۔
دادی یہ کہاں پھنسا رہی ہیں آپ مجھے ، اور ویسے بھی نکاح کا فائدہ محبت تو مجھے اس سے ہے نہیں ، وہ بے رخی سے بولا۔
ہوجائے گی وہ بھی ، جب تیری متاع حیات بن جائے گی وہ ، کہتی وہ رکی نہیں اٹھ کے چلی گئی ۔
شام کو وہ الوینہ توفیق سے الوینہ انزال بن چکی تھی ، اس کی خوشی کی انتہا نہ تھی ، مگر انزال کے دل میں اس کے لیے ذرہ بھر بھی محبت نہ تھی ، اور وہ خود کو آج بھی وہی انزال سمجھ رہا تھا جو پہلے تھا ، اس کی زندگی میں الوینہ کہیں نہیں تھی کہیں نہیں ، اس نے تو بس کاغذ کے ٹکڑے پہ سائن کیا تھا ، دل سے کب قبول کیا تھا ۔
اور ثوبانہ اس بات سے ناواقف تھی کہ یہی نکاح الوینہ کے گلے کا پھندا بن جائے گا ، اس نے تو اسے ایک خوشی دی تھی ۔
^•^•^•^•^•^•^•^ •^
تم یہاں کیا کر رہی ہو ؟ انزال کمرے میں آتے ہی الوینہ کو دیکھ کر بولا ۔
میں آپ کے دھلے کپڑے پریس کرکے الماری میں رکھنے آئی تھی ، اور دیکھیں ناں کمرہ کس قدر بکھرا پڑا تھا ، میں نے اس کی سیٹنگ کی ، الوینہ چہرے پہ مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے بولی ۔
تم یہ سب کیوں کرتی ہو ، انزال نے شوز اتارتے ہوئے پوچھا ۔
کیونکہ آپ میرے شوہر ہیں ، اور یہ میرا فرض ہے ، الوینہ شوز اٹھا کر ریک میں رکھتے ہوئے بولی ۔
ہاہاہاہا ۔۔۔۔۔ شوہر ۔۔۔۔ واٹ آ چیپ ورڈ ، میں نے تمہیں کبھی اپنی بیوی نہیں سمجھا ، وہ طنز سے بولا ۔
میں تو سمجھتی ہوں ناں آپ کو اپنا شوہر ، اور بے پناہ محبت کرتی ہوں آپ سے ، اور آپ کے سمجھنے نا سمجھنے سے کیا ہوتا ہے ، یہ تو حقیقت ہے ناں کہ میں آپ کی بیوی ہوں ، ایک ایسی حقیقت جسے آپ جھٹلا نہیں سکتے ، کہتی وہ رکی نہیں کمرے سے نکل گئی۔
لو جی اس کے بھی پر نکل آئے ، ایسی حقیقت جھٹلا نہیں سکتے ، ہونہہ ! مائی فٹ ایک منٹ بھی نا لگاؤں ، اس حقیقت کو مٹانے میں ، لیکن خیر تم ہو لو کچھ دن خوش ، وہ ہاتھ لہراتے ہوئے بولا اور واشروم میں گھس گیا ۔
^•^•^•^•^•^•^•^ •^
پر ابو ایسے کیسے چلا جاؤں میں ، آپ نے مجھے پہلے بتایا تک نہیں ، میں نہیں جا سکتا ، انزال منہ بناتے ہوئے بولا ۔
دیکھو برخوردار ! پڑھائی تو تمہیں کرنی ہے ، اور تمہیں انگلینڈ بھی جانا ہے میں ایڈمیشن کی بات کرچکا ہوں ، اور میں نے تمہیں بتایا ہے کہ تم جارہے ہو صبح کی فلائٹ سے ، تم سے پوچھا نہیں ہے ، توثیق گرج دار آواز میں بولے ۔
وہ بغیر کچھ کہے بے بسی سے مڑا اور کمرے سے نکل گیا ۔
بے دلی سے اس نے پیکنگ کی ، اور دادی سے ملنے ان کے کمرے میں چلا آیا ۔
دادی میں آجاؤں انزال نے ادھ کھلے دروازے سے اندر جھانکتے ہوئے پوچھا۔
ہاں آجاؤ ناں ۔۔۔۔ وہاں کیوں کھڑے ہو انہوں نے پیار سے کہا ۔
دادی ابو نے میرا ایڈمیشن انگلینڈ کی کسی یونیورسٹی میں کروا دیا ہے اور میں صبح کی فلائٹ سے جارہا ہوں ، آپ سے ملنے آیا تھا ، اداسی اس کے چہرے سے عیاں تھی ۔
اللّٰہ تمہیں کامیاب کرے بیٹا ، دل لگا کے پڑھنا ہاں ، اور پریشان مت ہو ، تیرے باپ نے تیری بھلائی کے لیے ہی یہ سب سوچا ہے ، ثوبانہ بیگم نے اسے گلے لگا کر کہا ۔
اوکے دادی ماں میں اب چلتا ہوں تھوڑا آرام کرلوں کے پھر سفر بھی کرنا ہے ، وہ ثوبانہ سے الگ ہوتے ہوئے بولا۔
ٹھیک ہے جا آرام کر ، ثوبانہ نے اس کے ماتھے پہ بوسہ ثبت کرتے ہوئے کہا ۔
وہ عجلت میں کمرے سے نکلا اور سامنے سے آتی الوینہ سے ٹکراتے ٹکراتے بچا ، پر آج اس نے الوینہ کو کچھ نہیں کہا تھا ، وہ بغیر کوئی تاثر ظاہر کیے آگے بڑھ گیا ، الوینہ حیرانگی کے عالم میں کمرے کی جانب بڑھ گئی ۔
یہ ان کو کیا ہوا تھا دادی ماں ، منہ پہ بارہ کیوں بجے ہوئے تھے ؟ الوینہ نے پوچھا۔
صبح کی پہلی فلائٹ سے انگلینڈ جارہا ہے پڑھائی کے لیے ، تمہارے تایا نے ابھی بتایا تو پریشان تھا ، ملنے آیا تھا ، ثوبانہ کہتی ہوئی لیٹ گئی ۔
دادی ماں ۔۔۔۔ وہ مجھے چھوڑ کے نہیں جاسکتے ۔۔۔۔ وہ چیخی ۔
ارے میری گڑیا چھوڑ کے کب جارہا ہے آجائے گا ناں ، کملی نہ ہو تو دادی نے اسے ڈپٹا ۔
الوینہ کمرے سے باہر نکل گئی تیزی سے زینے عبور کرتی وہ انزال کے کمرے تک پہنچی ، کمرہ لاک نہیں تھا اس لیے وہ دستک دیے بنا ہی اندر بڑھ گئی ۔
انزال ۔۔۔۔۔ آپ مجھے چھوڑ کے نہیں جاسکتے ، میں آپ کو جس دن نہ دیکھوں ، میرا دن نہیں گزرتا ، میں مر جاؤں گی انزال ، وہ اس سے لپٹ کے پھوٹ پھوٹ کے رو پڑی ۔
انزال نے اسے بانہوں میں بھینچ لیا ، ناجانے کیوں آج وہ اس سے دور نہیں ہوا تھا ، بلکہ اسے خود سے قریب کرلیا تھا ۔
میں انگلینڈ جارہا ہوں ، قبر میں نہیں جو یوں رو رہی ہو ، انزال نے اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر کہا ۔
انزال ۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔ آپ ۔۔۔ کے بغیر ۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔ رہہ ۔۔۔ سکتی ۔۔۔ وہ سسکتے ہوئے بولی ۔
میں آجاؤں گا ناں ، ڈونٹ وری اب یہ آنسو صاف کرو ، اور جاکر سو جاؤ مجھے بھی آرام کرنا ہے ، اس نے الوینہ کو خود سے الگ کرتے ہوئے کہا۔
وہ بوجھل قدموں کے ساتھ اپنے کمرے میں لوٹ گئی وہ ساری رات الوینہ کی روتے ہوئے گزر گئی ۔
صبح الوینہ اس کی جانب بڑھی تھی رات کی اس کی محبت کے باعث شاید ، پر وہ اسے نظر انداز کرتا آگے بڑھ گیا تھا ، درد کی ایک لہر الوینہ کے وجود میں سرایت کرگئی ۔
^•^•^•^•^•^•^•^ •^
ارے منہ لٹکا کہ کیوں بیٹھی ہو ؟ کیا اس نے بات نہیں کی ؟ ثوبانہ نے ٹھوڑی پہ ہاتھ رکھ کے پوچھا۔
دادی ماں نہیں کرتے وہ مجھ سے بات ، آپ کہتی تھی ناں کہ انہیں ہوجائے گی مجھ سے محبت ، پر نہیں دادی ماں ان کے لیے میں اہمیت نہیں رکھتی ، کتنے میسج کرتی ہوں میں وہ سین کر لیتے ہیں پر جواب نہیں دیتے ، دادی ماں وہ کبھی نہیں بدلیں گے کبھی نہیں۔۔۔۔۔ وہ پھٹ پڑی ۔
ارے میری گڑیا بدلے گا کیوں نہیں ضرور بدلے گا ، یہ جو محبت ہوتی ہے ناں یہ بڑے بڑے پتھر دل مردوں کو پگھلا دیتی ہے ، آج تیرا دل اس کے گن گاتا ہے ناں ، دیکھنا ایک وقت ایسا آئے گا جب اس کا دل تیرے لیے دھڑکے گا ، بس رب پہ یقین رکھ ، اور صبر کر ، ثوبانہ نے اسے گلے سے لگایا ۔
الوینہ کتنے ہی پل دادی ماں کے گلے لگ کے روتی رہی ۔
آج انزال کو گئے دو ماہ ہوچکے تھے پر اس نے ایک بار بھی الوینہ سے بات نہیں کی تھی وہ ہر پل اس کے لیے تڑپتی تھی پر اسے اس بات سے فرق نہیں پڑتا تھا۔
^•^•^•^•^•^•^•^ •^
ارے او تاربہ ۔۔۔۔ مسفرہ ۔۔۔۔ مستبشرہ ۔۔۔۔ کدھر ہو دیکھو تمہاری بھابھی دیکھ کے آئی ہوں آج اور تصویر بھی لائی ہوں ، ہائے اللّٰہ جی پورا چاند کا ٹکڑا ہے ، جلدی آؤ ۔۔۔۔ تزکیہ بیگم نے خوش ہوتے ہوئے بیٹیوں کو بلایا ۔
ان کی آواز پہ الوینہ جو باورچی خانے میں تھی بھاگ کر باہر نکلی ۔
جی تائی امی ۔۔۔۔ آپ نے بلایا اس نے آہستگی سے پوچھا ۔
تمہیں نہیں بلایا ، پر خیر آ توں بھی دیکھ ___ ابھی ان کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ تاربہ ، مسفرہ مستبشرہ بھی آ دھمکی ۔
جی امی کہاں ہے بھابھی کی تصویر ، لائیں پہلے مجھے دیکھائیں تاربہ نے ماں کے ہاتھ سے تصویر کھینچی ۔
واللّٰہ ۔۔۔۔۔ کتنی ۔۔۔۔ پیاری ہے ۔۔۔۔ سب نے یک زبان ہوکر کہا ۔
الوینہ تم بھی دیکھو ناں ۔۔۔۔ انزال بھائی کی دلہن ۔۔۔ تاربہ نے الوینہ کے سامنے پکچر لہرائی جو ساکت بلکل بے جان سی کھڑی تھی ۔
تائی امی ۔۔۔۔ انزال ۔۔۔۔ کی ۔۔۔۔ دلہن ۔۔۔۔ لفظ ٹوٹ کے اس کے منہ سے ادا ہوئے ۔
ہاں انزال کی دلہن ۔۔۔ کیا شادی نہ کروں اس کی ۔۔۔ اور توں کیوں اتنی سٹھیا گئی ہے ، نظر لگاؤ گی تم میری بہو کو جاؤ کام کرو اپنا ، تزکیہ نے غصے سے کہا۔
الوینہ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ کمرے کی جانب بڑھ گئی ۔
تزکیہ اور اس کی بیٹیوں کے قہقہے اس کی سماعتوں میں بمب پھوڑ رہے تھے ۔
وہ بیڈ پر اوندھے منہ لیٹے رو رہی تھی ، جب ثوبانہ کمرے میں آئی ۔
ارے الوینہ کیا ہوا ہے ؟ یہ کیا حالت بنا رکھی ہے کمرے کی اور ایسے کیوں پڑی ہو اوندھے منہ ، ثوبانہ نے پریشانی ظاہر کی ۔
وہ اٹھی ۔۔۔۔ آنکھیں آنسوؤں سے نم ۔۔۔۔ بے حد سرخ سوجی ہوئی۔
الوینہ میری بچی یہ کیا ہے ۔۔۔۔ کیا ہوا ہے ؟ یہ کیا حالت بنائی ہے ۔۔۔۔؟ ثوبانہ گھبرا گئی ۔
دادی ماں ۔۔۔ تائی ۔۔۔۔ اس سے آگے وہ نہ بول سکی سسکیوں نے اس کا گلا بند کردیا ہو جیسے ۔
کیا کہا تزکیہ نے کیا ڈانٹا ۔۔۔۔؟ بتاؤ مجھے ۔۔۔۔ میں اسے بخشوں گی نہیں ۔۔۔۔۔ ثوبانہ عجلت میں بولی۔
نہیں کچھ نہیں کہا ، نہیں ڈانٹا ، وہ الٹے ہاتھ سے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی ۔
پھر ۔۔۔؟ یوں رونے کی وجہ ؟ ثوبانہ نے بھنویں اچکائے۔
وہ ۔۔۔ تائی ۔۔۔۔ امی ۔۔۔۔ کہہ ۔۔۔۔ رہی ۔۔۔۔ تھی ۔۔۔ وہ ۔۔۔۔ انزال کے لیے ۔۔۔۔ دلہن ۔۔۔۔ دیکھ آئی ۔۔۔ ہیں ۔۔۔ اور تصویر ۔۔۔ بھی لائی ہیں ۔۔۔ وہ سسکتے ہوئے بولی لفظ ٹوٹ ٹوٹ کر اس کی زبان سے ادا ہوئے ۔
ارے میری چندا میں ہوں ناں پریشان کیوں ہوتی ہو ، ابھی صرف دلہن دیکھی ہے ، شادی تو نہیں کی ناں ، اور میں انزال سے بات کروں گی ، انکار کردے گا وہ ، ثوبانہ نے اسے اپنی بانہوں کے حصار میں بھر کے پیار سے کہا۔
انزال مان جائیں گے ناں ، آپ بات کرو گی ناں ، وہ سسکتے ہوئے بولی ۔
ہاں میری جان میں کروں گی بات ، یقین کرو میرا ، ثوبانہ نے اس کے چہرے پہ آئے بالوں کو کان کے پیچھے اڑستے ہوئے کہا ۔
الوینہ کو دادی ماں کی باتوں سے دلاسہ ملا اور وہ آنسو صاف کرتی اٹھ کے واشروم چلی گئی ۔
^•^•^•^•^•^•^•^ •^•^•^
یہ آپ نے اچھا نہیں کیا تزکیہ بیگم رخشندہ نے تزکیہ کے لاؤنج میں داخل ہوتے ہی کہا ۔
کیا ہوا رخشندہ بہن آپ اس قدر ناراض کیوں ہیں بیٹھیں نا بات کرتے ہیں تزکیہ نے صوفے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔
ہمیں دی منگنی کی تاریخ اور بیٹا آپ کا شادی شدہ ہے ہمیں اندھیرے میں رکھ کے تم یہ کیا کرنے چلی تھی آخر میری معصوم بچی کا کیا قصور تھا اور یہ تو خدا کا شکر ہے لاکھ لاکھ کہ ہمیں پہلے ہی تمھاری مکاری کا پتہ چل گیا ناجانے کیسے کیسے لوگ بستے ہیں اس زمین پر اللّٰہ معافی ۔۔۔۔ رخشندہ نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا ۔
یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ ، رشتہ نہیں کرنا چاہتی تو مت کریں پر ہمارے اوپر اتنا گھناؤنا الزام تو مت لگائیں ، میرا بیٹا ابھی پڑھ رہا ہے شادی کہاں سے ہوگئی واللّٰہ کچھ تو خدا کا خوف کریں آپ تزکیہ نے غصے سے کہا ۔
اچھا تو ہم جھوٹے ہیں تو یہ کیا ہے ، رخشندہ نے پرس سے کاغذ کا لفافہ نکال کے تزکیہ کی جانب بڑھایا ۔
لفافہ کھولتے ہی تزکیہ کی نگاہیں ورک پر لکھے نام پر ساکت ہوگئی ، جہاں الوینہ کو انزال سے منسوب کیا گیا تھا ، ہاں یہ انزال کے نکاح نامے کی فوٹو کاپی تھی جو رخشندہ کے پوچھ پرت کرنے پر اسے پتہ چلا تھا کہ انزال شادی شدہ ہے ۔
معذرت بہن یہ سب ہمیں نہیں معلوم تھا ، یہ سب ہمیں انجان رکھ کے کیا گیا ہے میں معافی کی طلبگار ہوں تزکیہ نے نگاہیں جھکا کے کہا ۔
رخشندہ پیر پٹختی باہر نکل گئی ، ناگواری اس کے چہرے سے عیاں تھی ۔
تیرے اوپر مجھے پہلے ہی شک تھا ، حرام خور ہمارا ہی کھاتی ہے اور ہمارے برتن میں ہی چھید ۔۔۔۔ واہ ۔۔۔۔ پر تجھے میں بخشوں گی نہیں تزکیہ نے اس کو بالوں سے کھینچا اور بیڈ سے اٹھا کے کھڑا کردیا ۔
تائی جان کیا ہوا ہے ؟ میں نے کیا کیا ہے الوینہ کے منہ سے دبی دبی چیخ نکلی ۔
یہ بھی تجھے بتانا پڑے گا بے غیرت ، تیری ہمت کیسے ہوئی میرے بچے کو اپنیے جال میں پھانسنے کی ، اور کب کیا تم نے اس سے نکاح ؟ تزکیہ کا ہاتھ اٹھا اور الوینہ کے چہرے پر یکے بعد دیگرے چار تھپڑ پڑے ۔
وہ چپ چاپ بلکل ساکت کھڑی تھی ، آنسو اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے ۔
میں پوچھ رہی ہوں کب دیا یہ گندا فعل انجام تم نے ۔۔۔ تزکیہ دھاڑی ۔
میں بتاتی ہوں سب ، چھوڑ دو اسے ۔۔۔ اور خبردار جو اب لگایا میری بچی کو تم نے ہاتھ ثوبانہ نے کمرے میں آتے ہی کہا ۔
یہ نکاح میں نے خود کروایا ہے ، اور یہ کوئی گندا فعل نہیں ، نکاح ایک مقدس رشتہ ہے اور یہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ، ثوبانہ نے آگے بڑھ کے الوینہ کو سینے سے لگایا ۔
اوہ اچھا تو آپ بھی اس کارنامے میں برابر کی شریک تھی ، تبھی میں کہوں میرا انزال ایسا تو بلکل بھی نہیں ہے ، پر اتنا بتا دوں میں آپ کو ساس صاحبہ کہ یہ مقدس رشتہ میں زیادہ چلنے نہیں دوں گی ، طلاق دلوا دوں گی میں اسے آج کل میں ہی ، طلاق ۔۔۔۔ سمجھی آپ ۔۔۔ تزکیہ نے نکاح نامے کی کاپی کو پھاڑ کر ان کے اوپر پھینکتے ہوئے کہا اور کمرے سے باہر نکل گئی ۔
دادی ماں تائی جان یہ کیا کہہ رہی ہیں وہ مجھے طلاق دلوا دیں گی وہ مجھ سے میرا انزال چھین لیں گی وہ سسک پڑی ۔
ارے میری شہزادی ایسا میں کچھ نہیں ہونے دوں گی حوصلہ رکھو ، یہ نکاح ہے کوئی گڈے گڈی کا کھیل نہیں جو جب چاہا جوڑا جب چاہا توڑ دیا ۔
پر دادی اگر انزال نے تائی جان کی بات مان لی تو ؟ وہ ثوبانہ کے چہرے کی جانب تکتے ہوئے بولی ۔
چپ ۔۔۔۔ ایسا مت سوچو جاؤ شاباش حالت ٹھیک کرو اپنی ایسا کچھ نہیں ہوگا ، ثوبانہ نے اس کا گال تھپتھپایا ۔
امی یہ سب میں کیسے کر سکتا ہوں ؟ دادی ماں کی خوشی کے لیے یہ نکاح کیا میں نے ، فون کے اسپیکر سے انزال کی آواز تزکیہ کی سماعت سے ٹکرائی ۔
مطلب تم طلاق نہیں دو گے اسے تزکیہ نے درشتگی سے پوچھا ۔
نہیں امی جب تک دادی زندہ ہیں تب تک تو نہیں بعد میں دے دوں گا ، میں دادی سے وعدہ کرچکا ہوں ، کہہ کہ انزال چپ ہوگیا ۔
ٹھیک ہے رکھو اپنے وعدے کی لاج ، دادی کی خوشی دیکھو ماں بیشک مر جائے ۔۔۔۔ تزکیہ نے غصے سے کال کاٹ دی ۔
دیکھتی ہوں میں کیسے چلتی ہے یہ شادی ۔۔۔ یہ نکاح ۔۔۔۔ ہونہہ ! وہ کڑوا گھونٹ بھر کر بولی اور موبائل میں کوئی نیو نمبر ڈائل کرنے لگی ۔
مجھے ایک ڈپلیکیٹ طلاق نامہ تیار کروانا ہے ، تم سمجھ رہے ہو نا میں کیا کہہ رہی ہوں تزکیہ نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا ۔
جی جی بن جائے گا بس انزال کے دستخط کی کوئی کاپی مل جائے ، تو ہوجائے گا کام ، موبائل کے اسپیکر سے ایک مضبوط مردانہ آواز ابھری ۔
ٹھیک ہے گھر آکر لے جاؤ اس کے آئی ڈی کارڈ کی کاپی ، کب تک ہوجائے گا کام ۔
ٹھیک ہے کل تک کردو یہ کام ، تمہیں منہ مانگی رقم مل جائے گی اللّٰہ حافظ ۔
تم یہ نکاح دھوکے سے کروا سکتی ہو ثوبانہ بیگم تو میں طلاق بھی دھوکے سے دلوا سکتی ہوں ، تزکیہ نے ہونٹوں پہ مکروہ مسکراہٹ بکھیری ۔
^•^•^•^•^•^•^•^ •^
یہ ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ ہو سکتا ۔۔۔ تائی امی ۔۔۔ انزال ایسا نہیں کر سکتے ۔۔۔ وہ مجھے طلاق نہیں ۔۔۔ دے سکتے ۔۔۔ وہ بلک رہی تھی ۔
پر وہ دے چکا ہے یہ رہا طلاق نامہ ۔۔۔۔۔۔ اسے تو تم نہیں جھٹلا سکتی نا تزکیہ نے اسمائل کرتے ہوئے کہا اور طلاق نامہ اس کے منہ پہ مارا ۔
کیا کہا تھا میں نے ساس صاحبہ میں یہ رشتہ نہیں چلنے دوں گی اور میں نے وعدہ نبھایا ، اب کیا ہوا دھچکا لگا بہت بڑا ۔۔۔ اوسان خطا ہوگئے ۔۔۔ تزکیہ نے ان کے آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہرایا ۔
انزال کا چہرا الوینہ کی نگاہ کے سامنے لہرایا ، ثوبانہ نے نگاہ جھکا لی وہ خود کو الوینہ کا قصوروار سمجھ رہی تھی ، بوجھل قدموں سے وہ کمرے سے نکل گئی شاید الوینہ کا سامنا کرنا ان کے لیے مشکل ہوگیا تھا ۔
منظر الوینہ کی نگاہوں کے سامنے دھندلایا اس نے آگے بڑھ کے کمرے کا دروازہ مقفل کردیا ، اس کا ضبط جواب دے گیا اور طلاق نامے پر انزال کے سائن دیکھ کے وہ چیخیں مار مار کے رونے لگی ۔
روتے روتے ناجانے اس کے ذہن میں کیا خیال ابھرا کہ وہ اٹھی ، اور اسٹول کو چھت والے پنکھے کے نیچے رکھ کے اس کے اوپر قدم رکھتے ہی بہت سی یادیں اس کی نگاہ میں گھومی ، وہ تمھیں ۔۔۔ طلاق ۔۔۔ دے ۔۔۔ چکا ہے ۔۔۔ تزکیہ کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی ، اسے خود سے بے پناہ نفرت محسوس ہوئی ماضی کی یادوں میں ہر طرف غم ہی تھے خوشیاں کب میسر آئی تھی اسے ، اس کا ظرف ٹوٹا ، آج وہ ہار گئی تھی ، اس کا ہاتھ اٹھا اور دوپٹا اگلے پل اس کی گردن میں تھا ۔
الوینہ میرا پتر دروازہ کھول ۔۔۔ ثوبانہ زور زور سے دروازہ پیٹ رہی تھی ، مگر ہر طرف چپ تھی بلکل خاموشی ۔
دروازہ توڑنے پر جو منظر ثوبانہ کی آنکھوں کے سامنے تھا اسے دیکھ کے اس کا دل دہل گیا ۔
الوینہ کا بے جان وجود پنکھے کے ساتھ لٹک رہا تھا ، اس کا نام صفحہ ہستی سے مٹ چکا تھا ، وہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنی چلتی سانسیں روک چکی تھی ، ثوبانہ بیگم وہیں گر پڑی ۔
اگلے لمحے توثیق چودھری کے گھر میں کہرام برپا تھا ، الوینہ ہزاروں ادھوری خواہشات لیے چارپائی پہ بے جان پڑی تھی ۔
^•^•^•^•^•^•^•^ •^
نہیں ۔۔۔۔ یہ نہیں ۔۔۔ ہوسکتا ۔۔۔ تاربہ تم یہ کیا کہہ رہی ہو ۔۔۔ یہ کیا بے ہودہ مذاق ہے ۔۔۔ الوینہ کیسے مر سکتی ہے ؟ کہو کہ یہ مذاق ہے ۔۔۔ انزال عجلت میں بولتا چلا گیا ۔
بھائی یہ مذاق نہیں ہے ، الوینہ واقع ہی مر گئی ہے ، اس نے سوسائڈ کیا ہے ، وہ سسکی ۔
گھر میں رونے کی آوازیں انزال کی سماعت سے ٹکرائی ، کال بند ہو چکی تھی ۔
انزال اس بات سے بے خبر تھا کہ الوینہ نے کس وجہ سے خود کشی کی ہے ۔
مار گئی ہے اسے میری بے رخی ، جان لے لی اس کی یک طرفہ عشق نے ، الوینہ میں مجرم ہوں تمھارا ، میں گناہگار ہوں تمھارا ، میں خود کو کبھی معاف نہیں کروں گا ، تم مجھ سے اتنی محبت کرتی تھی کہ میری بے رخی نے تم سے تمھاری زندگی چھین لی ، ناجانے کیوں میں تمھاری محبت کو نہ پہچان سکا ، میں نے تمھاری محبت کی قدر ہی نہ کی ، میں آپ سے محبت کرتی ہوں انزال ۔۔۔ سسکیوں میں ڈوبی اس کی آواز انزال کی سماعت سے ٹکرائی درد کی ایک ٹیس انزال کی روح و جان میں سرایت کرگئی ، وہ مضبوط سڈول جسم کا مالک ایک پر وقار شخصیت رکھنے والا مرد زمین پر بیٹھتا چلا گیا ، انزال دھاڑیں مار کر رو رہا تھا ، الوینہ ۔۔۔ میں ۔۔۔ تمھارا مجرم ۔۔۔ ہوں لفظ ٹوٹ ٹوٹ کر اس کے منہ سے ادا ہورہے تھے ، اب کچھ باقی نہیں رہا تھا کچھ بھی نہیں ، غم و پچھتاوے کے ملے جلے تاثرات نے اسے گھیر لیا اور وہ گھٹتے دم کے ساتھ کسی معصوم بچے کی مانند سسک رہا تھا ، اسے ہوئی تھی الوینہ سے محبت ۔۔۔ پر اب دیر ہوچکی تھی ، وہ دنیا فانی سے پردہ کر چکی تھی ، دور ۔۔۔ کہیں بہت دور جا چکی تھی ، اپنی کئی لا حاصل تمناؤں کے ساتھ منوں مٹی تلے جا سوئی تھی ۔
ڈھلتی شام ، گہری خاموشی کا راج اور ان میں انزال کی سسکیوں کی آواز ، پچھتاوے کی جلتی آگ ماحول کو سوگوار بنا چکی تھی ۔
پاس آئے
دوریاں پھر بھی
کم نہ ہوئی
اک ادھوری سی
ہماری کہانی رہی
آسمان کو زمیں
یہ ضروری نہیں
یہ جان لے
عشق سچا وہی
جس کو ملتی نہیں
منزلیں ۔۔۔۔
رنگ تھا نور تھا
جب قریب توں تھا
اک جنت سا تھا
یہ جہاں ۔۔۔۔
وقت کی ریت پر
کچھ میرے نام سا
لکھ کے چھوڑ گیا
توں کہاں ۔۔۔۔
ہماری ادھوری
کہانی ۔۔۔۔
ختم شد
Also Read Bay Khudi Main Sanam Tum Ko Chahtay Hain ham By Sadi Abaan
Read Here complete Urdu Novels in PDF. Romantic Urdu Novels PDF download. Read online best collection of Urdu Books free of cost.
Request your favorite novel with us.
Also read Tum Se Tum Tak By Umm E TaifoorYak Tarfa Ishq Mera
Urdu Afsanay, Complete Novelt, Episodic Novels, Urdu Books and best reading Material in Urdu.