Takhleeqi Salahiyat Paragraph By Zaheera Jamshaid

Zaheera Jamshaid

یہ جنوری 1948ء کی یخ بستہ رات کا آخری پہر تھا۔حمیدہ سفید شرارہ پہنے اور گرم کالی شال اوڑھے حویلی کے آنگن میں ٹہل رہی تھی۔ نیند تو جیسے اس سے روٹھ چکی تھی۔شوہر کی جدائی نے اسے ہڈیوں کا پتلا بنا دیا تھا۔ رنگ زردی مائل ہو گیا تھا۔ ان سفید کپڑوں میں وہ اور بھی اوپری سی لگتی تھی۔ لیکن زندگی کی ہر خوشی کی طرح اس نے رنگوں کو بھی خود پہ حرام کر لیا تھا۔

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe and find best Urdu Reading Material at Caretofun.

Join Our Whatsapp Channel
Follow Our Facebook page

آج پھر سارے لمحے کسی فلم کی طرح اسکی آنکھوں میں چلنے لگے۔اگست1947ء میں جب پاکستان آزاد ہوا،اس سے پہلے تک وہ اپنے شوہر چودھری رشید کے ساتھ امرتسر کی حویلی میں رہا کرتی تھی۔شوہر کی رفاقت میں گزرا ہر لمحہ سونے چاندی جیسا تھا۔مگر حالات ہمیشہ ایک جیسے کہاں رہتے ہیں۔

پاکستان آنے سے ہفتہ پہلے چودھری رشید کو دہلی جانا پڑا۔دہلی اس کا ماموں زاد رہتا تھا۔جو آزادی کی تحریکوں میں شامل ہونے کی وجہ سے جیل بند تھا۔دہلی میں چودھری رشید کے کافی جاننے والے تھے۔ وہ اپنے ماموں زاد بھائی کو چھڑوانے دہلی چل دیا۔

چونکہ امرتسر کے ان علاقوں میں آزادی کی بدبو نہ پھیلی تھی، اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ ان علاقوں کے مسلمانوں نے پاکستان جانے سے قطعاً انکار کر دیا تھا۔ اسی وجہ سے چودھری رشید بھی سارے معملات اپنے چھوٹے بھائی اصغر کے حوالے کر کے دہلی کی گاڑی چڑھ گیا۔ وہاں جا کر اسے معلوم ہوا کہ حالات ویسے نہیں ہیں جیسے امرتسر کے مسلمان سمجھ رہے ہیں۔انھوں نے امرتسر تار بھیجا کہ اصغر اپنے خاندان اور باقی مسلمانوں سمیت پاکستان جانے والے قافلوں میں شامل ہو جائے۔وہ دہلی سے ہی اپنے ماموں زاد کے ساتھ آ جائے گا۔جب قافلے لاہور رکیں گے تب ہم مل لیں گے۔کیونکہ امرتسر میں سکھ وافر موجود تھے اور ان سے اب غداری کی بو آنے لگی تھی۔ان حالات میں وہاں رکنا خطرے سے خالی نہ تھا۔

اصغر نے بھائی کی ہدایات پہ عمل کیا اور قافلے کے ساتھ باسلامت لاہور آن پہنچا۔ کچھ دنوں کی دقت کے بعد انھیں شیخوپورہ میں عارضی رہائش الاٹ ہو گئی۔ لیکن حمیدہ شوہر کے بغیر ٹلنے والی نہ تھی۔ اصغر نے بھی کیمپوں میں رہ کر بھائی کے آنے کا انتظار کیا۔تھوڑے دنوں بعد اس کا وہی ماموں زاد ان سے آن ملا۔اس نے بتایا کہ چودھری رشید اور وہ جس قافلے میں تھے ان پر انگریزوں اور سکھوں نے حملہ کر دیا تھا۔ رشید بھائی کو انھوں نے گھیر لیا تو بھائی نے مجھے چلے جانے کا کہا اور میں اپنے بیوی بچوں کی جان بچاتا وہاں سے آلیا۔وہ زندہ نہیں رہے ہو گے۔یہ کہہ کر وہ رونے لگا۔حمیدہ میں اتنی سکت کہاں تھی کہ وہ ان سب باتوں پہ یقین کر لیتی کہ اسکی دنیا اجڑ چکی ہے۔ بس اس دن سے وہ ہر رات آنگن میں شوہر کا انتظار کرتی اور سارا دن دیوڑی میں بیٹھی رہتی۔ اس انتظار نے اسے نیم پاگل کر دیا تھا۔ ان سب باتوں کو سوچتے ہوئے پھر سے شبنم اس کی
پلکوں پہ ٹھہرنے لگی۔ تبھی گھر کے دروازے پہ دستک ہوئی۔ وہ جو اپنے خیالوں میں تھی اس دستک سے سہم گئی۔پہلے تو اس کا دل کیا کہ اصغر کو آواز دے پھر وہ خود ہی دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
“کون______؟” اس نے آہستہ سے پوچھا۔
“حمیدہ میں رشید_____” اسے اپنے کانوں پہ خراب ہونے کا شک گزرا تبھی دوبارہ پوچھا۔
” ک کون رشید_____؟” اس کی آواز کانپنے لگی۔
” میں رشید ، تیرا شوہر جھلئیے___” اس نے نم آواز سے جواب دیا۔
اسے اسکے شوہر کہے جانے پہ اس محلے کی دادی بسم اللہ کی بات یاد آئی جو کل صبح ہی اسے بتا رہی تھی کہ اسکی عدت پوری ہونے والی ہے بس ایک ہفتہ رہ گیا ہے۔ وہ تو آج بھی خود کو رشید کی سہاگن مانتی تھی مگر لوگ____

وہ یہ سب باتیں نہیں سوچنا چاہتی تھی۔ اس نے بھیگی آنکھوں اور لرزتے ہاتھوں کے ساتھ لکڑی کا دروازہ کھولا۔ سامنے رشید کو کھڑا دیکھا۔ جس کی شکل بالکل بدل گئی تھی۔ ایسے معلوم ہوتا تھا کہ مہینوں اس نے روٹی کی شکل نہیں دیکھی۔ رنگ سیاہ اور جلد ہڈیوں سے چپک چکی تھی۔وہ شوہر سے لپٹ کر رونے لگی۔
“اتنی رات گئے سردی میں یہاں کیا کر رہی تھی؟” رشید نے اس کے ماتھے کا بوسہ لیتے ہوئے پوچھا۔ دونوں کی آنکھوں سے آنسوں جھرنے کی طرح بہہ رہے تھے۔
“آپ کا انتظار کر رہی تھی۔ آپ نے اتنی دیر لگا دی۔” کوئی لفظ نہیں تھا کہ ان کے جذبات کی عکاسی ہو سکتی۔
“میں تو مر ہی جاتا حمیدہ____ بس تیری محبت نے مجھے زندہ رکھا۔ مجھے پتہ تھا وہ جھلّی ابھی بھی میرے انتظار میں بیٹھی ہو گی۔” اب وہ اس کا ہاتھ پکڑے آنگن میں آ گیا تھا۔
ہجر نے دونوں کو بدحال کر دیا تھا۔
دونوں باتیں کرتے کبھی رو دیتے کبھی مسکرا دیتے۔کبھی حمیدہ کی گرتے پانیوں جیسی ہنسی پورے آنگن کو رونق بخشتی۔ انھیں کسی اور کا خیال ہی نہ رہا۔

دروازہ کھلنے اور اس کھسر پھسر سے اصغر بھی جاگ گیا اور کسی شک کے تحت اپنی بندوق بھی ساتھ اٹھا لایا۔ وہ باہر آیا تو رشید اور حمیدہ ہاتھ پکڑے سردی میں چارپائی پہ بیٹھے تھے۔ اصغر بھائی کو پہچان نہ سکا۔ شک اور غصے نے اس سردی میں بھی اصغر کو پسینے سے بھگو دیا تھا۔ بھائی کو دیکھ کر جونہی رشید اٹھا اور اسکی طرف بڑھا ، اصغر کی بندوق سے گولیاں نکلیں،جو سیدھا رشید کے سینے میں آ لگیں۔ حمیدہ نے اصغر کی طرف بے یقینی سے دیکھا۔

“اصغر یہ تو نے کیا کر دیا______ یہ تیرا بھائی رشید ہے______ ” پورے آنگن میں حمیدہ کا شور اور رشید کا خون پھیلتا جا رہا تھا۔دھند کی وجہ سے پوری حویلی دھندلی ہوتی جارہی تھی۔ آزادی کی اس داستان میں دونوں کی محبت بے موت مری تھی۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top