Saza Kisay Mili | Teen Aurtain Teen Kahaniyan

مزید کہانیوں کے لئے اس لنک پہ کلک کریں

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe and find best Urdu Reading Material at Caretofun.

Join Our Whatsapp Channel
Follow Our Facebook page

Teen Auratien Teen Kahaniyan

سزا کسے ملی

ان دنوں کا ذکر ہے جب ایک ریٹائرڈ پولیس آفیسر کار نہیں رکھتا تھا۔ اس زمانے میں رشوت کا بازار اس قدر گرم نہ ہوا تھا۔ قوم کے محافظوں میں مظلوم کا لحاظ قدرے باقی تھا۔ تبھی والد صاحب آفیسر ہو کر بھی سفید پوشی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ اعلیٰ آفیسر کی اولاد ہو کر بھی میں اور میری بہنیں تانگے میں اور چھوٹے بھائی سائیکل پر اسکول جایا کرتے تھے۔
ان دنوں میں نویں جماعت میں تھی۔ میں اپنی تعلیم سے غرض رکھتی تھی۔ ارد گرد کے ماحول سے قطعی بے خبر رہا کرتی تھی۔ ایک دن میں اسکول جانے کے لیے تانگے میں بیٹھی تو اچانک میری نظر سامنے والے گھر کی طرف اٹھ گئی جہاں ایک دبلا پتلا مسکین صورت لڑکا کتابیں لیے اپنے گھر سے نکلا تھا۔
تانگہ آگے آگے اور وہ پیچھے پیچھے اپنی سائیکل پر رواں دواں تھا۔ یقیناً اس کے اور ہمارے اسکول جانے کا وقت ایک ہی تھا، رستہ بھی ایک تھا۔ وہ روز عین اس وقت گھر سے برآمد ہوتا تھا جس دم ہم بہنیں تانگے پر سوار ہوتیں اور تانگہ چل پڑتا تو وہ سائیکل پر ہمارے پیچھے رواں رہتا۔
یہاں تک تو میں نے اس بات کو کوئی اہمیت نہ دی لیکن جب نویں سے دسویں تک یہی معمول چلتا رہا تو میرے دل نے سوچنا شروع کر دیا۔ خاص طور پر جب وہ غیر حاضر ہو جاتا تو میں سوچنے پر مجبور ہو جاتی کہ آخر اسے کیا ہوا ہے کہ آج نظر نہیں آ رہا حالانکہ وہ تو دھن کا اتنا پکا تھا کہ آندھی ہو یا طوفان ہمارے تانگے کی روانگی کے وقت اپنے دروازے پر موجود ہوتا۔ دیکھنے میں سیدھا سادہ بھولا بھالا تھا تبھی اس کی اس حرکت کا کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ دراصل وہ اتنا غریب تھا کہ اس کے تعاقب کا بھی ہم لوگ برا نہیں مانتے تھے۔ حالانکہ وہ ایسا زمانہ تھا کہ کسی کی بہن بیٹی کو دیکھنا قابل گردن زدنی جرم تھا۔ میں پھر ایک آفیسر کی دختر تھی لیکن وہ اتنے بوسیدہ لباس میں ہوتا کہ میں نے اسے کبھی نہیں گردانا۔ بہنیں بھی اس بات کو اہمیت نہیں دیا کرتی تھیں کہ ایک منحنی اور افلاس زدہ لڑکا روز سائیکل پر ہمارے ساتھ سفر کرتا ہے۔ سخت سردیوں میں بھی وہ ایک ڈھیلی سی قمیض پہنے سائیکل پر سواری کر رہا ہوتا تھا۔ یہ بعد میں پتا چلا کہ اس کا نام واجد ہے اور وہ اپنی کلاس کا سب سے لائق طالب علم ہے۔
واجد کا قد نکلتا ہوا اور دیہاتی لڑکوں کی طرح کمزور بدن ہونے کے باوجود چہرے پر صحت مندانہ جھلک موجود تھی۔ آنکھوں میں ذہانت مگر شکل واجبی تھی۔ میں علاقے کے معزز گھرانے سے تھی، ابو ریٹائرڈ آفیسر ضرور تھے مگر ان کا رعب اور دبدبہ اطراف میں تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ میرے لیے اس قسم کے لڑکے میں کوئی کشش نہیں تھی۔ ہمارے گھر کا ماحول ایسا تھا کہ اس عمر میں کسی لڑکے میں دلچسپی لینے کا تصور نہ تھا۔ خاندانی روایات بہت سخت تھیں۔ تاہم میری والدہ کی سوچ ددھیال والوں سے مختلف تھی۔ وہ روشن خیال اور پڑھی لکھی خاتون تھیں۔ وہ غیرخاندان سے تھیں ۔
میٹرک کا امتحان دے دیا تھا۔ اب نتیجے کا انتظار تھا۔ جس روز رزلٹ آیا والد صاحب اخبار لے کر آئے۔ میں فرسٹ ڈویژن میں کامیاب تھی اور ہمارے ہی محلے کے ایک طالب علم نے ضلع بھر میں اوّل پوزیشن لی تھی۔ والد صاحب نے میری والدہ کو بتایا تو میرے کان کھڑے ہو گئے۔
کون… وہی دبلا پتلا سا لڑکا جو سامنے والے گھر میں رہتا ہے۔ ہاں وہی… وہ اچھے خاندان سے ہے لیکن باپ نے دوسری شادی کر لی ہے۔ واجد اور اس کی ماں کو یہاں چھوڑ کر وہ شہر میں دوسری بیوی بچوں کے ساتھ رہتا ہے۔ یہ بے چارے اسی وجہ سے کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں حالانکہ واجد کا باپ کافی بڑا زمیندار ہے لیکن وہ ان لوگوں کے گزارے کے لیے کچھ نہیں بھیجتا۔ دادا کی کچھ زمین سے تھوڑی سی آمدنی ہو جاتی ہے۔ اسی وجہ سے یہ مفلسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ پھر بھی اس کی ذہانت دیکھو کہ وہ لڑکا ضلع بھر میں پہلے نمبر پر آیا ہے۔
ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک عمر رسیدہ خاتون ہمارے گھر آئیں۔ وہ مٹھائی لائی تھیں۔ بولیں کہ واجد کے اوّل آنے کی خوشی میں ان کی والدہ نے بھجوائی ہے۔ امی نے شکریہ کہہ کر مٹھائی لے لی اور کہا کہ ہم کسی روز مبارک باد دینے آئیں گے۔
آج مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ واجد کون ہے اور اس کے والد کی کیا حیثیت ہے تب دل میں اس کے لیے ہمدردی کے جذبات جاگے۔ سوچنے لگی۔ ایک زمیندار کا بیٹا ہو کر بھی کیسی حالت میں جی رہا ہے۔ کاش اس کے والد ایسی غفلت نہ برتتے تو آج واجد بھی محلے میں اپنے خاندان کے تشخص سے پہچانا جاتا اور گلی محلے میں بکھرے ہوئے خس و خاشاک جیسا نہ ہوتا۔
اب میرے ذہن میں ہمہ وقت ایک سوال گردش کرتا رہتا کہ چوہدری روشن چراغ کا بیٹا اور بیوی کسمپرسی کے عالم میں زندگی بسر کرنے پر کیوں مجبور ہیں۔ ان کی کیا خطا ہے جو چوہدری صاحب نے انہیں چھوڑ رکھا ہے اور پلٹ کر خبر لینے کے بھی روادار نہیں ہیں۔ زمیندار لوگ ایک سے زیادہ شادیاں کرتے تھے اور ان کے ہر بیوی سے اولادیں بھی ہوتی تھیں مگر وہ اس طرح کسی ایک بیوی اور اس کی اولاد کو لاوارثوں کی طرح نہیں چھوڑتے تھے۔ یہ سوال مجھے کافی عرصے سے پریشان کرتا رہا مگر جواب کہیں سے نہ مل سکا۔
میٹرک کے بعد میں نے نزدیکی شہر کے کالج میں داخلہ لے لیا مگر واجد آگے پڑھائی جاری نہ رکھ سکا۔ وہ پڑھنا چاہتا تھا کوئی سر پر ہاتھ رکھنے والا نہ تھا اور نہ ہاتھ پکڑ کر آگے لے کر جانے والا۔ تبھی اس نے تعلیم جاری رکھنے کا ارادہ ترک کر دیا اور نوکری کے حصول کی خاطر بھاگ دوڑ کرنے لگا۔ نوکری بنا سفارش نہیں ملی تو والد صاحب کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ آپ اپنے اثر و رسوخ سے مجھے نوکری دلوا دیں۔ والد صاحب نے وعدہ کر لیا، تبھی وہ روز میرے والد صاحب کی بیٹھک کے چکر لگانے لگا۔ گھر میں جب والد صاحب امی سے اس کا تذکرہ کرتے تو میں بھی واجد سے متعلق باتوں کو سن لیتی تاہم میں کسی سے، اس بارے میں سوال نہ کرتی۔ مجھے اس بات کی فکر ضرور رہتی کہ ایک معزز آدمی کا بیٹا معمولی نوکری کے لیے چکر لگاتا رہتا ہے۔ والد صاحب ابھی تک اسے کوئی نوکری نہیں دلوا سکے تھے۔
ایک روز والدہ نے کہا۔ واجد بیچارہ اتنے چکر لگا چکا ہے اس کے لیے کسی جگہ ملازمت کی کوشش کیوں نہیں کرتے تب انہوں نے جواب دیا۔ کم عمری میں میٹرک کرنا جہاں امیروں کے بچوں کے لیے اعزاز کی بات ہے وہاں غریب کے لیے بدبختی کی علامت ہے۔ کیا کہہ رہے ہو فردوس کے ابا میں کچھ نہیں سمجھی۔ اس لڑکے نے کم عمری ہی میں میٹرک کر لیا ہے۔ نوکری کے لیے اب اسے تین سال انتظار کرنا پڑے گا۔ جب تک اس کا شناختی کارڈ نہیں بن جاتا یہ کس طرح نوکری کر سکتا ہے۔
ہماری پرانی خادمہ خالہ بخت کی نواسی کا نام ثمینہ تھا۔ وہ میرے کمرے کی صفائی اور جھاڑ پونچھ پر مقرر تھی۔ اس کی ماں بیوہ تھی اور خالہ بخت کے پاس اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ رہتی تھی۔ ثمینہ کا کھانا، پینا، اوڑھنا، بچھونا سب ہمارے گھر سے بندھا ہوا تھا۔
یہ لڑکی صورت شکل کی اچھی اور معصوم سی تھی، مگر جتنی معصوم تھی اتنی سیانی بھی تھی۔ تمام محلے کی خبر رکھتی تھی کہ کون لڑکا کس لڑکی میں دلچسپی رکھتا ہے۔ کوئی چھوکرا اگر بیری کو پتھر مار رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ در پردہ وہ اس گھر کے اندر کسی کو اپنے دل کا پیغام پہنچا رہا ہے۔ جب میں کالج سے آتی تو اس کے پاس محلے کی کوئی نہ کوئی خبر ہو تی۔ خاص طور پر چھٹی والے دن وہ میرے پاس زیادہ وقت بِتاتی۔ تمام محلے کی خبریں سناتی۔ اس نے سب لڑکوں کو محلے میں کسی نہ کسی لڑکی سے وابستہ کر رکھا تھا سوائے واجد کے جس کا وہ ذکر تک نہیں کرتی تھی۔ ایک روز میں نے ازخود سوال کیا۔ ثمینہ… واجد کے بارے میں تم نے کبھی کچھ نہیں بتایا۔ یہ کس کی جستجو میں ہے۔ بولی۔ فردوس بی بی… یہ کسی کی جستجو میں نہیں ہے۔ صرف اپنی ماں کے بارے میں سوچتا ہے اور اس کو سکھ دینے کی خاطر نوکری تلاش کر رہا ہے۔ میری امی روز ان کے گھر جاتی ہیں۔ ان کے گھر میں سلائی مشین پر جا کر کپڑے سلائی کرآتی ہیں وہ اس کی تعریف کرتی ہیں۔ ہاں ایک بات ہے اس لڑکے کا دماغ اپنی والدہ کے گرد گھومتا ہے یا پھر آپ کے تانگے کے پہیوں کے ساتھ۔ یہ جملہ سن کر میں جھینپ گئی۔
محلے کے باقی گھروں کی کہانیاں میں کبھی بیزاری اور کبھی لاتعلقی سےنہیں سنتی تھی لیکن واجد کے بارے میں باتوں کو میں نے لاتعلقی سے سنا پھر بھی اس بھولی لڑکی نے میری دلچسپی کو پالیا۔
اس نے ایک دن بتایا کہ واجد کے دادا نے ایک لاوارث لڑکی کو پناہ دی تھی جب وہ بڑی ہوئی تو ان کے بیٹے کو پسند آ گئی اور اصرار کر کے اس کے ساتھ شادی کر لی مگر ایک بیٹے کے بعد یہ بیوی دل سے اتر گئی۔ شہر پڑھنے گئے تو اپنے ساتھ پڑھنے والی ایک امیر گھرانے کی لڑکی پسند آگئی اور اس کے ساتھ دوسری شادی کر کے وہاں کے ہو رہے۔ واجد اور اس کی ماں کو بھول گئے، جب تک واجد کے دادا زندہ رہے ان کی کفالت کرتے رہے، ان کی وفات کے بعد تھوڑی سی زمین جو اس پوتے کے نام کر گئے تھے، اسی کی آمدنی سے ان کا گزارہ چلتا ہے۔
واجد کے والد نے جب شہر میں دوسری شادی کی تو انہوں نے دوسری بیوی اور اس کے گھر والوں کو یہ نہ بتایا کہ وہ پہلے سے شادی شدہ ہیں اور ان کا ایک بیٹا بھی ہے۔ ڈر تھا کہ یہ بات لڑکی والوں کو معلوم ہو گئی تو وہ رشتہ دینے سے انکار کر دیں گے۔ یہ راز… پھر راز ہی رہا۔ دوسری بیوی بچوں کو اب تک معلوم نہ تھا کہ چوہدری روشن چراغ کی پہلے بھی شادی ہو چکی ہے۔
واجد کے گھر پر ایک بوڑھا ملازم بھی رہتا تھا جو اس کے دادا کے زمانے سے تھا۔ وہ دادا کی وفات کے بعد بھی اس گھر کو چھوڑ کرنہ گیا اور اب اس کی عمر ستر سال کے قریب ہو چکی تھی۔ وہ واجد اور اس کی والدہ کا خیال رکھتا تھا۔ یہ باتیں ثمینہ کی والدہ نے بتائیں۔ اس طرح مجھے ان سوالوں کا جواب مل گیا جن کو جاننے کے لیے میں بے چین تھی۔
نہیں معلوم کہ یہ بے چینی مجھے کیوں لاحق رہتی تھی۔ بہت غور کرنے کے باوجود وجہ نہ جان سکی۔ بظاہر میرا اس لڑکے سے کوئی واسطہ نہ تھا اس کی والدہ بھی ہمارے گھر نہیں آتی تھیں۔ میں نے کبھی واجد سے بات تک نہیں کی تھی۔ پھر بھی اس کے بارے میں ذہن سوچتا تھا اور سوچ نکلتی نہ تھی۔ سچ کہتی ہوں اس لڑکے سے محبت تو کیا کبھی انسیت تک محسوس نہ ہوئی تھی۔ پھر بھی سوچ کا عارضہ لاحق تھا۔ شاید یہ کوئی ذہنی عارضہ تھا جو مجھ میں راسخ ہو گیا تھا۔ شاید اس کی وجہ کم بخت ثمینہ کا انداز گفتگو ہو کہ جب بھی وہ واجد کے بارے میں بات کرتی کچھ اس طرح معنی خیز انداز سے کہ میں سوچ میں پڑجاتی تھی۔
اب میں نے خود تنہائی میں اپنے آپ سے بار بار یہ سوالات شروع کر دیئے کہ آخر مجھے واجد کے بارے جاننے کا اس قدر شوق کیوں ہے؟ اپنا بہت تجزیہ کیا مگر مجھ پر دل کا راز نہ کھل سکا۔ جب میں نے ایف اے کا امتحان پاس کر لیا تو والدہ نے میری کتابیں واجد کے گھر بھجوا دیں کیونکہ انہیں علم ہو گیا تھا کہ یہ لڑکا پرائیویٹ طور پر امتحان دینا چاہتا ہے مگر کتابیں خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔
اب میرے رشتے آنے لگے تھے۔ مجھے احساس ہوا کہ والد میرا گھر بسانے کی سوچ رہے ہیں۔ میں بھی عمر کے اس موڑ پر آگئی تھی جب اپنے جیون ساتھی کی خیالی تصویر ذہن میں بننے لگتی ہے اور اس خیالی تصویر میں دھیرے دھیرے رنگ بھرتے جاتے ہیں۔ جب بھی میرے خیال نے جیون ساتھی کی تصویر تراشی وہ واجد سے ملتی جلتی تھی۔ مجھے صدمہ ہوتا کہ بھلا مجھ سی حقیقت پسند لڑکی ایک کسمپرسی کے پیکر اور غربت کے تجریدی نمونے کو کیونکر چاہنے لگی ہے۔
میرا ایف اے کا نتیجہ آیا میں انگریزی میں پاس نہیں ہو سکی۔ میں ہی کیا ہماری کلاس کی اکثر لڑکیاں اس مضمون میں فیل تھیں کیونکہ انگریزی پڑھانے والی خاتون صحیح طرح سے نہ پڑھا پائی تھیں تاہم میں نے خوب محنت کی تھی۔ پرچے اچھی طرح حل کئے تھے۔ والد صاحب کا تفتیشی ذہن بے چین ہو گیا۔
اس زمانے میں سیکریسی برانچ حقیقی طور پر کام کرتی تھی جہاں سے پرچوں کا اسٹیٹس معلوم کیا جا سکتا تھا اور ممتحن کا نام بھی پتا چل جاتا تھا۔ والد صاحب نے بڑی کاوش کے بعد ممتحن کا نام معلوم کر لیا، ان صاحب کی انگریزی شاید بہت زیادہ ہائی فائی تھی۔ انہوں نے ان طالب علموں کو زیرو دیےتھے جنہوں نے رٹے لگا کر پرچے حل کیے تھے یوں ہم رٹّو طوطوں کا بیڑہ غرق ہو گیا تھا۔
اب دوبارہ پرچے کی تیاری کرنی تھی لہٰذا والدہ نے ثمینہ کو واجد کے گھر بھیجا کہ میری انگریزی کی کتابیں واپس لا دے۔ جب کتابیں آئیں تو حیران رہ گئی کہ واجد نے میرے نام کے گرد پھول بنا دیے تھے اور اتنی نفاست اور خوبصورتی سے بنائے تھے کہ اصل پھولوں کا گمان ہوتا تھا۔ رنگ ایسے قرینے سے بھرے تھے کہ اعلیٰ آرٹسٹ بھی دنگ رہ جائے، میں خاموش ہو رہی۔ والدین کو واجد کا یہ کارنامہ دکھاتی تو جانے ان کا رد عمل کیا ہوتا۔ لیکن ایک دن شومئی قسمت کہ میں نے کتاب کھول کر بھائی سے انگریزی کے ایک جملے کا ترجمہ دریافت کرنا چاہا، تو اس نے کتاب میرے ہاتھ سے لے لی اور جب الٹ پلٹ کر میرے نام کے چاروں طرف پھول بنے دیکھے تو بولا۔ اب پتا چلا کہ انگریزی میں کیوں فیل ہوئی ہو۔ پڑھنے کی بجائے اپنے نام کے گرد پھول سجاتی رہتی ہو۔ یہیں پر بس نہیں کیا کتاب جا کر والد صاحب کو دکھائی کہ دیکھئے فردوس کے کارنامے۔ یہ کاپیوں اور کتابوں پر آرٹ کے نادر نمونے بناتی تھی تو پھر فیل تو ہونا تھا۔ گویا کہ میرے فیل ہونے کی وجہ یہ گل کاری تھی جبکہ میرا اس سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ اب کیسے زبان کھولتی کہ یہ میرے نہیں بلکہ اس مسکین صورت لڑکے کے کرتوت ہیں جس کو ترس کھاکر آپ لوگوں نے میری کتابیں دی ہیں۔ میں اپنے نام کے گرد پھول بنے دیکھ کر نہ صرف سٹپٹائی بلکہ حیران بھی ہوئی تھی۔
ثمینہ کے علاوہ کون تھا جس سے اپنے دل کی بات کہتی۔ مجھے پریشان دیکھ کر خود ہی پوچھ لیا۔ کیا بات ہے فردوس بی بی آپ کچھ پریشان دکھائی دیتی ہیں۔ پریشان نہیں ہوں البتہ اَپ سیٹ ضرور ہوں، جانے تم اَپ سیٹ کا مطلب سمجھتی ہو یا نہیں۔ سمجھتی ہوں بی بی۔ یہ تو بتایئے کہ کس نے آپ کو ’’اَپ سیٹ‘‘ کیا ہے۔
کسی نے نہیں… بے اختیار وہ بات روک لی جو لبوں تک آیا چاہتی تھی۔ یہ سوچ کر کہ اس کی ماں روز واجد کے گھر جاتی ہے اور یہ رات کو ماں کے پاس چلی جاتی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ذرا سی بات طشتِ ازبام ہو جائے اور میرے ساتھ ساتھ واجد کی بھی شامت آ جائے۔ والد صاحب نے مجھے کچھ نہ کہا وہ خود کتابیں واجد کو دے چکے تھے۔ بھائی میری شکایت کرنے کے بعد والد کی گمبھیر خاموشی دیکھ کر چپ ہو گئے۔ مگر اپنے باپ کو گہری سوچ میں ڈوبا دیکھ کر میں اندر سے کانپ گئی۔
خیر گزری والد صاحب نے مجھے تعلیم حاصل کرنے سے نہ روکا لیکن وہ واجد کے باپ کے پاس چلے گئے اور کہا کہ میں جانتا ہوں تم نے پہلی شادی کر رکھی ہے، تمہاری دوسری بیوی اور بچے نہیں جانتے۔ تم نے اگر واجد کے سر پر اب بھی ہاتھ نہ رکھا اور اسے اور اس کی ماں کو نہ اپنایا تو میں یہ راز تمہارے بچوں کو بتا دوں گا۔ بہتر ہے کہ اب تم اپنے لڑکے کے وارث بن جائو۔ تمہارے بیٹے نے ضلع میں ٹاپ کیا ہے اسے شہر لے آئو اور کالج میں داخلہ دلوا دو۔
والد کی دھمکی سے واجد کا باپ ڈر گیا۔ اس نے وعدہ کر لیا کہ وہ ایسا ہی کرے گا اور جلد از جلد شہر میں علیحدہ گھر لے کر پہلی بیوی اور بیٹے کو لے آئے گا۔ ادھر سے نمٹ کر والد مطمئن ہو گئے کہ لڑکے سے جان چھوٹی اور نقصان بھی کسی کا نہیں ہوا۔ یہ بات یہیں تک رہتی تو اچھا تھا لیکن میرے اندر کا چور اس وقت باہر آ گیا جب میں نے جانا کہ واجد اب ہمیشہ کے لیے یہاں سے جا رہا ہے۔ کیوں نہ اسے آخری الوداعی بات کہہ دوں کہ ناسمجھ جب مجھے تم سے کوئی واسطہ نہ تھا تو تم نے کیوں میرے نام کے گرد کتاب اور کاپیوں پر پھول بنائے، اب بھگتو سزا یہاں سے جانے کی۔
یہ چند سطریں ایک پرچے پر لکھ کر میں نے پرچہ ثمینہ کو دیا کہ جا کر واجد کو دے آئو۔ وہ کم عقل مٹھی میں پرچہ دبائے جب واجد کے گھر کی طرف جا رہی تھی، شومئی قسمت، والد صاحب گلی میں اسے مل گئے، وہ نماز پڑھ کر آ رہے تھے۔ ان کو دیکھ کر لڑکی گھبرا گئی، انہیں کچھ شک ہوا اور ثمینہ کو روک کر کہا۔ کہاں جا رہی ہو۔ کیا کام ہے ادھر۔ وہ مزید ڈر گئی اور ہاتھ اپنی پیٹھ کی طرف کر لیا جس میں پرچہ تھا۔ تو والد صاحب نے اسے مٹھی کھول کر دکھانے کو کہا۔ مٹھی میں پرچہ تھا وہ لے لیا، کھول کر دیکھا تو تیوری پر بل پڑ گئے۔ پرچہ جیب میں رکھ لیا اور ثمینہ کو ڈانٹ کر کہا کہ واپس گھر چلی جائو۔ واجد کی قسمت اچھی تھی، اسی روز اس کا باپ آگیا۔ بیوی اور بیٹے کو ساتھ لے گیا مگر ثمینہ کی قسمت اچھی نہ تھی کہ وہ ہمیشہ کے لیے ہم سے بچھڑ گئی۔
ثمینہ بیچاری بیوہ لڑکی تھی۔ والد صاحب نے ایک ایسے دیہاتی سے اس کا رشتہ کرادیا جو بدلے میں اس کی ماں کو کافی رقم دے گیا، دوسرے لفظوں میں اس غریب کا سودا ہو گیا، اس طرح اس کا نکاح ایک بڑی عمر کے آدمی سے ہو گیا جو اسے اپنی دلہن بنا کر لے گیا۔ ثمینہ اس کی تیسری بیوی بن گئی اور اس سے کسی نے نہ پوچھا کہ تمہیں اس شخص کی زوجہ بننا قبول ہے یا نہیں۔ بے ز بان لڑکی تھی، بے زبان ہی رہی، کچھ نہ بول سکی۔ اس کے بعد اس کی دوبارہ میں نے شکل نہ دیکھی۔ والد صاحب نے میری شادی اپنے بھائی کے صاحبزادے سے کردی اور میں اپنے سسرال رخصت ہو کر چلی گئی۔
معلوم نہیں ثمینہ کو کیسا گھر اور کیسا شوہر ملا۔ پھر کبھی اس سے نہ مل سکی۔ دل میں ایک خلش ضرور ہے کہ اے کاش ایک بار اس سے مل کر پوچھ سکتی کہ ثمینہ… تم خوش تو ہو یا تمہاری زندگی سزا بن گئی ہے۔ (ع۔ م… لاہور)

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top