Qurbani By Sami Faraz Urdu Afsana
Qurbani By Sami Faraz
“ٹھک ٹھک ٹھک”دروازے پہ دستک ہوئی تو سفیان صاحب تھکے تھکے سے دروازے کی طرف ہو لیے…
“کون؟؟؟”دروازہ کھولتے ہی انہوں پوچھا…
“گوشت دے دو! چچا…”ایک نو عمر بچا التجاء کر رہا تھا…
“ختم ہو گیا ہے گوشت…جاؤ!”انہوں نے کوفت بھرے لہجے میں سختی لاتے ہوئے کہا…اور ساتھ ہی دروازہ تقریباً پٹختے ہوئے بند کر دیا…
ریحان یہ منظر دیکھ رہا تھا اور اسے…اس بچے سے ہمدردی ہو رہی تھی…مگر وہ ابھی تک خاموش بیٹھا تھا…
سارا گوشت بانٹ تو دیا…اب اپنا حصہ بھی خود نہ کھائیں کیا…عید کا مزہ ہی خراب کر دیا…انہوں نے بیزاری سے کہا اور…کمرے کا رُخ کرنے لگے…کہ اچانک ان کے قدم ریحان کی آواز پر تھم سے گئے…..
“ابو!!!بکرا لینے چلیں نا!چلیں نا!”۹ سالہ ریحان اپنے ابو سے خواہش کر رہا تھا…کہ ریحان بھی چاہتا تھا کہ دوسرے بچوں کی طرح وہ بھی قربانی کے جانور کے ساتھ کچھ وقت گزارے اور…اس کے ساتھ خوب کھیلے…چونکہ عید کو 3 دن باقی تھے اور تقریباً لوگ جانور لا چکے تھے…اور ریحان کو بھی بکرا لانے کا شوق تھا…..
“اچھا بیٹا!چلتے ہیں…تھوڑی دیر تک…”سفیان صاحب نے بیٹے کو ٹالنے کی ناکام کوشش کی…کیونکہ انکے پاس بکرا لا کر رکھنے کی جگہ نہیں تھی…اور اسے سنبھالتا بھی کون؟؟؟اسلئے وہ سوچ رہے تھے…کہ چاند رات والے دن بکرا لینے جائیں گے…اس طرح ریحان بھی خوش ہو جائے گا…اور قربانی کے جانور کی کچھ خدمت بھی ہو جائے گی…
مگر ریحان بھی آج ضِد پہ ہی اُتر آیا تھا…
“نہیں ابو!!!آپ ابھی چلیں ورنہ میں………”اس نے ‘میں‘ کو سوچنے کے انداز میں لمبا کر دیا…”میں ناراض ہو جاؤں گا…”ریحان نے منہ بَسورتے ہوئے کہا…لہجے میں بچگانہ دھمکی اور غصے کا عنصر نمایاں تھا…
آخر بچوں کی ضد کے آگے والدین کو ہی سرِ تسلیم خم کرنا پڑ جاتا ہے…
سفیان صاحب نے بھی ریحان کی دھمکی نما شرط کے آگے گھٹنے ٹیک دیے…اور بکرا منڈی جانے کیلئے اُٹھ کھڑے ہوئے…
کچھ ہی دیر بعد وہ ایک سفید رنگ کے خوبصورت سے بکرے کے ساتھ گھر لوٹے…..
ریحان بہت خوش تھا…اس کی خوشی سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی…کبھی اسے گھاس کھلاتا,کبھی پانی پِلاتا,کبھی اس کے سر پہ پیار سے ہاتھ پھیرتا اور اسکی حرکتوں سے محظوظ ہوتا…..
ہنستے کھیلتے ٣ دن گُزر گئے…جانوروں کے ساتھ کھیلا بھی گیا…جانوروں پہ مہندی سے نام بھی لکھے گئے…کوئی چندا…کوئی ببلو…تو کوئی کچھ اور…
سب بہت خوش تھے…سب کی آنکھیں آج معمول سے ہٹ کر جلدی کھلی تھیں کیونکہ عید کی خوشی ہمیشہ ہی نرالی ہوتی ہے…
مرد حضرات نمازِ عید ادا کر کے خوشی خوشی گھروں کو لوٹے…..
مگر اب وقت تھا کچھ بچوں کے اداس ہونے کا…اور کچھ کے لئے یہ سماں بھی عجیب کیفیت کا ہوتا…اور وہ کافی محظوظ ہوتے…گویا کوئی تماشا دیکھ رہے ہوں…
لوگوں نے جانور قربان کرنا شروع کیے…
ریحان کو ان ٣ دنوں میں اپنے بکرے سے کافی اُنس ہو گیا تھا…
اس نے بھی آخری بار اپنے بکرے کو پیار کیا…اور اسکی امی اسے اپنے ساتھ کمرے میں لے آئیں…کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ ریحان بکرا ذبح ہوتے نہیں دیکھ سکے گا…
سفیان صاحب نے خود بکرا ذبح کیا…اور بقیہ لوازمات میں مصروف ہو گئے…
بچے اپنے کھیل کود میں مشغول ہو گئے…..
جیسے جیسے سورج بلند ہوتا گیا…لوگ قربانی کی مصروفیات سے فارغ ہونے لگے…کچھ لوگوں نے گوشت تقسیم کر دیا تھا…اور کچھ لوگ ابھی اس کام کو سر انجام دے رہے تھے…سفیان صاحب نے بھی حصوں کی تقسیم کر تھی…اور وہ کافی تھکن محسوس کر رہے تھے…سو!!!وہ فریش ہونے چلے گئے…
ابھی وہ کپڑے بدل کر بیٹھے ہی تھے…کہ دروازے پہ دستک ہوئی…..
Thank you for reading this post, don't forget to subscribe and find best Urdu Reading Material at Caretofun.
Join Our Whatsapp Channel
Follow Our Facebook page
ریحان نے اپنے ابو کا یہ رویہ پہلی بار دیکھا تھا…اور اسے اس انداز سے سخت نفرت محسوس ہوئی تھی…اس بات کا ثبوت اس نے اس بچے سے ہمدردی کر کے دیا تھا…
“ابو…!آپ میرا گوشت اس کو دے دیں…”ریحان نے فیصلہ کُن انداز میں کہا اور اُٹھ کر فریج کی جانب بڑھا ہی تھا کہ…
“لیکن بیٹے!!! وہ تو تمہارا حصہ ہے نا!”سفیان صاحب نے تفہیمی انداز میں کہا…
“مگر ابو!!!اسے بھی تو تکّہ پسند ہو گا نا!…”ریحان نے جواز پیش کیا…
اس کے ساتھ ہی سفیان صاحب کے کمرے کی طرف اُٹھنے والے قدم بے اختیار رُک گئے…اور ایک ثانئے میں ان کے دماغ میں وہ واقعہ برق رفتاری سے گزر گیا…
“جب ریحان نے ان سے تکہ کھانے کی فرمائش کی تھی…اور وہ پورے دن کا کام ختم کرنے کے بعد اتنے تھک چکے تھے کہ… مشکل سے گھر پہنچے تھے…انہوں نے اسے ٹالنے کی کوشش بھی کی تھی…مگر وہ بچہ تھا ضد کر بیٹھا…تو وہ اپنے لختِ جگر کی خواہش کی خاطر اسی وقت بازار گئے تھے…”
اس بات کے یاد آتے ہی…انہوں نے فوراً گوشت نکالا…اور دروازہ کھولا…لیکن وہ بچہ تھوڑا آگے جا چکا تھا…وہ فوراً اس کے پیچھے گئے اور اسے گوشت دینے کے ساتھ ساتھ…اس سے اپنے اس رویے کی معذرت بھی کی…
“اَلْحَمْدُ لِلّٰہ”سفیان صاحب نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے انہیں ایسی دردمند اولاد سے نوازا…اور انہیں کسی کا حق اسے دینے کی توفیق عطا فرمائی…
اب وہ گھر آچکے تھے اور…انہوں نے ریحان کو اپنی بانہوں میں سمیٹ کر خوب پیار کیا…اور انہیں اپنے بیٹے پر رشک آ رہا تھا…..
ختم شُد