Parhay Likhay Jahil Urdu Afsana By Mehreen Naz

پڑھے لکھے جاہل۔۔۔
parhay likhay jahil
parhay likhay jahil
نوکری کے انٹرویوز کے لیے خاصا رش لگا ہوا تھا تمام لوگ بڑے ہی پرجوش نظر آرہے تھے اعلی تعلیم یافتہ لوگ ہاتھوں میں اپنی ماسٹرز ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریز تھامے بڑی بے صبری سے اپنی باری کا انتظار کررہے تھے
ان دنوں گرمی کافی زیادہ تھی غرض کہ گرمی سے پریشان یہ لوگ کہیں منرل واٹر کی بوتل لبوں سے لگائے ہوئے تھے تو کہیں جوس کی بوتل سے اپنی تشنگی بجھا رہے تھے لیکن کچھ لوگ ساتھ میں اپنے بچوں کو بھی لائے تھے جن کے ہاتھ میں سلانٹی اور لیز وغیرہ تھے اور وہ ان سے لطف اندوز ہورہے تھے لیکن ارے یہ کیا ایک صاحب نے پانی کی بوتل پی کر وہیں پھینک دی ایک بچی نے اپنی ماما کو خالی ریپر دیا تو وہ آگ بگولہ ہوگیئں ارے مجھے کیوں دے رہی ہو پھینک دو نا یہیں ڈسٹ بن تو بہت دور پڑا ہے وہ دوسری خاتون کو اپنی کوالیفیکیشن ایم فل بتا رہی تھیں او مائے گاڈ کیا ہماری تعلیم ہمیں یہ سکھاتی ہے ؟ اس وقت یہ احساس غالب ہوا کہ  محض علم حاصل کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ علم سے کچھ حاصل کرنا زیادہ ضروری ہے ۔۔۔
جہاں بچپن سے ہی اعلی تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا وہیں پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا اک الگ ہی جنون تھا لیکن اس جنون کے بہتے پانی میں ٹھہراو اس وقت آیا جب پڑھے لکھے لوگوں کو ہی سڑکوں پر سگریٹ پھونکتے دیکھا اور جب فخر سے روڈ کو پان کی تھوک سے رنگتے دیکھا جب 14 اگست کے دوران پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے والوں کو ہی جھنڈیوں کی بے حرمتی کرتے دیکھا کیا ہم واقعی پڑھے لکھے ہیں یا پھر پڑھے لکھے جاہل ہیں ؟؟
کیونکہ علم تو فقط ہمارے سر سے گزرا ہے کہ جس نے ہمیں نہ زندگی گزارنا سکھایا اور نہ ہی زندگی گزارنے کے آداب سکھائے فقط سکھایا تو منہ ٹیڑھا کرکے سیلفی لینا اور بڑی بڑی باتیں کرنا کیا ہمارا مقصد یہ تھا یا پھر مقصد صرف علم حاصل کرکے نوکری کرنا تھا یا پھر ڈگری لینا کیونکہ جہاں مقصد نوکری کرنا ہوتا ہے وہاں پھر نوکر ہی پیدا ہوتے ہیں کوئ رہنما پیدا نہیں ہوسکتا.
جبکہ اسکے برعکس قائد کا نوجوان اور اقبال کا شاہین تو وہ  ہے جسکا مقصد ناصرف ایک پڑھا لکھا شہری بلکہ ایک بامقصد انسان بھی  بننا ہو اور  جو علم کو اسطرح حاصل کرتا کہ علم اسکے ذہن کو متاثر کرکے دل کو روشن کرے روح کو معطر کرے اور شخصیت نکھر کر سامنے آئے اور پھر وہ اپنے علم کو استعمال کرکے معاشرے میں تبدیلی لائے نہ کہ پڑھے لکھے ہونے کے باوجود بھی جہالت کا تمغہ اپنے گلے میں ڈالے  اور اپنے کردار سے معاشرے میں مزید برائ پیدا کرے ۔۔۔
درحقیقت:
جتنے جاہلوں میں ہم کو جاہل نہ ملے
اتنے پڑھے لکھوں میں ہم کو جاہل ملے ۔۔۔۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top