Khud Hi Ko Ker Buland Itna Urdu Afsana by Mehreen Saleem

خودی کو کر بلند اتنا!!!
khud hi ko ker buland itna
khud hi ko ker buland itna
قدرے اکتائے ہوئے لہجے میں وہ گویا ہوا مجھے نہیں کرنی مزید یہ نوکری بہت خواری ہے اس میں نہیں ہوتا مجھ سے اب واٹ!! کیا کہہ رہے ہو تم ماما کے پیروں سے تو گویا زمیں کھسک گئ اتنی محنت سے تمہیں پڑھایا لکھایا اس قابل بنایا کہ اب تم اپنی زمہ داری خود اٹھاو لیکن یہ کیا نوکری نہیں کروگے تو کیا گھر میں چوڑیاں پہن کر بیٹھ جاوگے عورتوں کی طرح لیکن ماما اسکے لیے صبح جلدی اٹھنا پڑتا ہے جو مجھ سے نہیں ہوتا پھر آفس جا کر بھی اتنا کام کرنا پڑتا ہے ماما قدرے برہمی سے گویا ہوئیں کیا تمہارے آفس روم میں ائیر کنڈیشنر نہیں لگا ہوا جی بلکل لگا ہوا ہے کیا تمہیں لنچ بریک نہیں ملتا جی بلکل ملتا ہے کیا  تمہارے لیے اسسٹنٹ نہیں رکھا گیا جو تمہارا ہاتھ بٹائے جی بلکل رکھا گیا ہے پھر کیوں تمہاری ناشکری ختم ہونے کو نہیں آرہی بیٹا عظمتوں کو پانے کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے تگ و دو کرنی پڑتی ہے شاید اپنی جان سے بھی زیادہ…. لیکن خیر تم نہیں سمجھوگے ….مرضی تمہاری جو کرنا ہے کرتے رہو وہ کافی شرمندہ ہوا تھا اس نے اپنی ماما کو شاید ناراض کردیا تھا اب دل بے چین ہوگیا تھا لیکن کیا کرتا سمجھ نہیں آرہا تھا صبح جلدی اٹھنے سے اسے عجب اک کوفت سی ہوتی تھی انہیں ملے جلے تاثرات میں ناجانے کب اسکی آنکھ لگ گئ صبح تیار ہوکر آفس کے لیے روانہ ہوا خلاف معمول اج امی کچن میں نہیں دکھی تھیں شایدوہ ناراض تھی یا پھر پتا نہیں کیا ۔۔۔
خیر  اسنے اپنی کار اسٹارٹ کی اور روانہ ہوگیا صبح کے وقت ٹریفک تو نہیں تھا لیکن سگنل کی وجہ سے اسے رکنا پڑا بہت سے بچے اسکول جارہے تھے اسی دوران اس نے دیکھا ایک طرف ایک بچہ اخبار بیچ رہا تھا اورایک  گندے سے کپڑے پہنےبھیک مانگ رہاتھا ایک بچی پھول لے کر اسکی گاڑی کے قریب آئ بھائ یہ لے لو اللہ تمہیں بہت دےگا اس نے اس بچی کو کچھ پیسے دیے شاید ترس کھا کر پہلی مرتبہ کسی کو کچھ دیا تھا ورنہ وہ اگنور کرکے نکل جاتا تھا۔۔۔۔ اتنے میں سگنل کھل گیا لیکن اس کے ذہن پر سوالیہ نشان چھوڑگیا کہ کیا ان بچوں کا حق نہیں تعلیم حاصل کرنے کا ۔۔۔۔ خیر وہ حکومت کو کوستا آگے نکل گیا ۔۔۔۔
اس نے جب اپنا سراپا دیکھا تو سوٹڈ بوٹڈ انتہائ اعلی کپڑوں میں وہ ملبوس تھا اور وہ بچہ اف دیکھ کر ہی کچھ ہورہا تھا اسے ماما کی باتیں یاد آئیں جب انہوں نے کہا تھا کہ تم نہیں سمجھوگے لیکن اب وہ کچھ کچھ سمجھنے لگا تھا ۔۔۔۔
جب اس نے اپنی23 سالہ زندگی کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ آج تک بس وہ اپنے لیے ہی جیتا تھا  کبھی کسی کے لیے کچھ بھی تو نہیں کیا بس ایک ایم لے کر زندگی گزر رہی تھی کہ بزنس مین بننا ہے اپنا گھر ہو گاڑی ہو ۔۔۔سب تو ہے میرے پاس لیکن بھر بھی خالی خالی سا محسوس ہوتا ہے کہ سب کچھ ہوکر بھی کچھ نہیں ہے مجھے تو بلندی چاہیئے تھی مطلب اعلی مقام وہ بھی مل چکا ہے لیکن اضطراب کیوں نہیں ختم ہورہا کل ماما بھی اتنی سی بات پر ناراض ہوگئیں ۔۔۔
خیر ۔۔۔ان خیالات کو جھاڑ کر جب وہ آفس پہنچا تو تھوڑا ڈسٹرب لگتا تھا ایک صاحب جو اسکے کافی اچھے استاد بھی رہ چکے تھے جب کبھی ضرورت پڑتی وہ ان سے گائیڈ لیتا تھا جب وہ وہاں سے گزرے تو رسمی علیک سلیک ہوئی وہ صاحب چہرہ دیکھ کر سمجھ چکے تھے کہ کچھ ہوا ہے  ۔۔۔وہ بات شروع کرتے اس سے پہلے ہی اس نے ایک سوال کر ڈالا سر ایک بات پوچھوں آپ سے ۔۔۔جی شیور۔۔۔۔سر ہماری زندگی کامقصد کیا ہے؟ ۔۔۔۔۔ وہ کافی حیران ہوئے انہیں اس سوال کی امید نہ تھی کیا ہوا بھئ اچانک سے یہ سوال۔۔۔ سر پلیز بتائیں تو۔۔۔۔۔
دیکھو بیٹا اللہ تعالی نے انسان کواس دنیا میں اپنا نائب یعنی خلیفہ بناکر بھیجا ہے ہم سب کو کسی نہ کسی کام کے تحت بھیجا گیا ہے  ہمیں اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے یعنی ساری مخلوق میں سے اشرف اور جسکو درجہ بڑا دیا ہے اس سے کام بھی بڑا لیا جاتا ہے ۔۔۔۔لیکن ہم سوچتے ہی نہیں ہم بس دنیاوی مقاصد میں لگ جاتے ہیں اسی کو سب کچھ سمجھتے ہیں ۔۔۔(دنیاوی مقاصد اوو تو میرا مقصد دنیاوی تھا)۔۔۔۔جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہیئے ہمارا مقصد ٹھوس ہونا چاہیئے جو مرتے دم تک ہمارے ساتھ ہو مرتے دم تک؟ ( مجھے تو لگا کہ میرا ایم بزنس مین بنناتھا اور وہ اچیو ہوگیا ہے) ۔۔۔نہیں ۔۔۔۔ہمارا مقصد تو بلندیوں کو پانا ہونا چاہیئے جسکی جستجو میں ہم پوری زندگی کوشاں رہیں
۔۔۔۔بلندی تو مل گئ نہ مجھے لیکن اس نے پوچھ لیا۔۔۔(بلندیاں یہ بلندیاں کیسے ملتی ہیں؟؟) بلندیاں اللہ کو راضی کرکے ملتی ہیں تم اسکی رضا میں راضی ہوجاو تمہیں نیم بھی ملیگا اور فیم بھی ملیگا اچھا کیا واقعی ایسا ہے جی بیٹا ایسا ہی ہے اگر 1400 سال قبل گرم ریت پہ لیٹے بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ  کو دیکھو تو تمہیں اندازہ ہوگا کہ بلندی کیا ہے اور کن لوگوں کو ملتی ہے اور کیسے ملتی ہے بلندی تو یہ تھی کہ وقت رک گیا جب بلال نے اذان نہ دی اگر تم اس خوش فہمی میں مبتلا ہو کہ عشق محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر تمہیں بلندی مل جائیگی تو فقط یہ تمہارا غلط گمان ہے ۔۔۔۔تم اپنی ظاہری خواہشات گھر گاڑی دولت سے پوری کرسکتے ہو لیکن روح ۔۔۔۔روح تڑپتی ہے ۔۔(۔کسکے لیے)؟؟
عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے جب تم لوگ اپنی روح کی تشنگی بھی دنیاوی عیش و عشرت سے بجھانا چاہتے ہو تو روح باغی ہوجاتی ہے اور تم لوگوں کو بے چین کردیتی ہے دلودماغ مضطر ہوجاتا ہے اور پھر سکون برباد ہوجاتا ہے ۔۔۔۔۔پھر تم لوگ چاہتے ہو کہ بلندی ملے۔۔۔ نہ نہ ایسے بلندی نہیں ملتی بلندی پانے کے لیے تو خود کو بلند کرنا پڑتا ہے جلنا پڑتا ہے ۔۔۔۔۔ (بیٹا ہم بیمار نہیں ہیں ہماری روح بیمار ہے اسکا علاج کرو۔۔۔)
یہ سب کیسے ممکن ہے سر؟؟  ۔۔۔۔۔آپ  اپنا ظاہر و باطن ایک سا رکھینگے نہ جب آپ اپنے دل میں سخاوت پیدا کرینگے نہ کہ صرف اپنے بارے میں سوچینگے۔۔(آج تک یہی تو کیا تھا) جب آپ بڑھ چڑھ کر لوگوں کی مدد کرنے والے بنینگے  ۔۔۔جب سخاوت اپنی مثال آپ ہو تب آپکو بلندیاں بھی ملینگی اور کائنات کا ہر ذرہ آپکے لیے دعاگو ہوگا اور پھر آپ جو چاہینگے وہ آپکو ملےگا ۔۔۔۔۔ لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے سر!!! ۔۔۔۔  جی بیٹا ان لوگوں کے لیے تو بہت مشکل ہے جو اپنا وقت pubg جیسی فضول گیمز میں برباد کرتے ہیں اور ٹک ٹوک پر ناچتے ہیں جو لوگ اپنی حدود کو ہی پامال کردیں تو پھر آسان چیز بھی انکے لیے مشکل ہوجاتی ہے (کل ہی تو آئ ڈی بنائ ہے ٹک ٹوک پر) لیکن اگر اپ میں واقعی تڑپ ہے اور کچھ کر دکھانے کا جذبہ ہے تو ایک کام کریں جس چیز کی  طلب ہو نہ اسے بانٹنے لگ جائیں آپ آسانیاں بانٹیں وہ آپکی طرف ہی لوٹ کر آئینگی (اور کیسے بانٹیں آسانیاں)؟
دوسروں کے کام آئیں انکی ممکنہ مدد کریں انکے دکھ درد میں انکا ساتھ دیں پھر آپکو بھی  بلندی ملے گی سچی؟؟ جی ۔۔۔لیکن یہ سب ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں مل جائیگا اسکے لیے آپکو کوشش نہیں سعی کرنی پڑے گی ۔۔۔۔۔سعی؟؟؟ یہ کیا ہوتاہے ۔۔۔۔۔سعی ایکسٹریم لیول کی کوشش  جسے انگلش میں strive کہتے ہیں (جو بی بی حاجرہ نے کی تھی اور زم زم کا چشمہ پھوٹ نکلا تھا)۔۔۔۔جی بلکل ۔۔۔ آپ بھی سعی کریں معجزے ہونگے اور ضرور ہونگے بلندیاں بھی نصیب ہونگیں اور قسمت بھی بدلے گی۔۔۔۔۔ بہت سی دماغ میں لگی گرہیں کھل چکی تھیں کاش کہ وہ پہلے ہی یہ سوال کر لیتا اسے لگا کے 23 سال بس ایک فلو پہ ہی اس نے گزاردیے  لیکن خیر۔۔۔۔ وہ جو سوچتا تھا کہ اسے مقام مل چکا ہے ۔۔۔۔غلط سوچتا تھا ماما نے بھی صحیح کہا تھا بلکل کہ ۔۔۔۔عظمتیں خیرات میں نہیں ملتی ابھی تو اسے بہت کچھ کرنا تھا بہت سے لوگوں کی مدد کرنی ہے سخاوت اپنانی ہے بھلائیاں بانٹنی ہیں روح کا علاج کرنا ہے  تبھی ہی تو بلندی ملے گی نہ تبھی ہی مرتبہ ملےگا جو ناصرف اس جہاں میں بلکہ اس جہاں میں بھی معاون ہوگا ارے ہاں پھر یہی وہ مقام ہوگا نہ (وہ خود سے گویا ہوا ) جہاں “خدا بندے سے خود پوچھے گا بتا تیری رضا کیا ہے”!!!!

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top