ہمارے گائوں میں صرف دولت والوں کے بچے اسکول جاتے تھے اور غریب دیہاتی اس وجہ سے اپنے بچوں کو اسکول میں داخل نہ کراتے کہ ان کی اولاد پڑھ لکھ کر ان کے ساتھ کھیتی باڑی کے کام سے گریزاں ہوجاتی تھی۔ شہ روز کے والد نے بھی اپنے بچوں کو اسی وجہ سے اسکول نہ بھیجا بلکہ اپنے ساتھ کام پر لگالیا۔ بیٹوںکے ساتھ ساتھ اس کی بیوی اور بیٹی بھی کھیتوں میں اس کی مدد کرتی تھیں۔ شہ روز بہت خوبصورت اور بااخلاق لڑکی تھی اسےکھیتوں میں کام کرنے سے زیادہ سینے پرونے کا شوق تھا۔ وہ محنتی اور سلیقہ شکار تھی۔ ہمارے گھر میری امی سے سلائی کڑھائی سیکھنے آتی تھی۔ یوں میری اس کے ساتھ دوستی ہوگئی۔ وہ مجھے ادھر ادھر کے قصے سناتی اور کبھی کبھی اپنے گھریلو مسائل بھی بیان کرتی، اس کا انداز گفتگو سادہ اور دلکش تھا۔ اس کی باتیں میرے کانوں کو بھلی لگتی تھیں۔
ایک دن وہ نہیں آئی۔ اگلے دن میں نے پوچھا کل تم کیوں نہیں آئیں۔ تو کہنے لگی۔ میری خالہ کا بیٹا ممتاز آیا ہوا تھا۔ میں اسے چھوڑ کر کیسے آجاتی۔ یہ بات اس نے کچھ اس طرح سادگی سے کہی کہ مجھے ہنسی آگئی۔ اب جب وہ نہ آتی میں سمجھ جاتی کہ ممتاز آیا ہوگا کیونکہ جب وہ آجاتا شہ روز گھر سے نہ نکلتی، سارا دن اس سے باتیں کرتی رہتی۔ اکثر ممتاز کی باتیں مجھے بھی بتاتی۔ جس نے اس سے شادی کا وعدہ کر رکھا تھا۔ پہلے تو شہ روز کے گھر والوں نے کوئی نوٹس نہ لیا پھر ان کی محبت کا راز کھل گیا۔ اس کی ماں کو پتا چل گیاکہ ممتاز ان کے گھر صرف شہ روز کی خاطر آتا ہے۔ تاہم وہ اپنی بیٹی سے اتنا پیار کرتی تھیں کہ بھانجے کے آنے پر پابندی نہ لگائی اور نہ ہی شہ روز کو ممتاز سے بات کرنے پر روکا کیونکہ وہ گرچہ خالہ زاد سے بات کرتی تھی مگر رہتی تو ماں کی نظروں کے سامنے تھی۔ کبھی ممتاز کے ہمراہ گھر سے باہر نہ جاتی تھی۔ شہ روز کی پھوپی بھی اکثر ان کے گھر آجاتی اس نے جو ممتاز اور شہ روز کو آپس میں باتیں کرتے دیکھا تو انتشار کا شکار ہوگئی۔ ان کی آپس میں گہری دلچسپی زلیخا کو ایک آنکھ نہ بھائی۔ اس نے اپنے بھائی کےخوب کان بھرے۔ دراصل وہ جانتی تھی کہ شہ روز کو باپ کی وراثت سے حصہ ملے گا اور اس لئے اپنے بیٹے کی شادی اس سے کرنا چاہتی تھی۔
باپ نےنہ صرف شہ روز کو ڈانٹا بلکہ ممتاز کے گھر آنے پر بھی پابندی لگادی۔ وہ کافی دن نہ آیا لیکن ایک روز اس کی ماں نے فصل کے موقع پر گڑ اور شکر اور ستو کا تحفہ اس کے ہاتھ بہن کو بھجوایا۔ شہ روز جو ممتاز کے لئے بے حد اداس تھی اس کی آمد پر خوش ہوگئی، کیونکہ وہ بہت دنوں بعد آیا تھا۔ اس کے لئے کھانا تیار کرنے لگی۔ تاہم اس کی ماں بے حد پریشان تھی۔ اس نے بھانجے سے کہا۔ بیٹا آج آگئے ہو آئندہ مت آنا۔ نہیں چاہتی شہ روز کا باپ تمہاری بے عزتی کرے۔
ممتاز کی ایک خالہ، شہ روز کے پڑوس میں رہتی تھی۔ وہ اب ان کے گھر آنے جانے لگا تاکہ شہ روز کی سن گن ملے۔ یہ لڑکی بھی جب دیوار سے اس طرف اپنے محبوب ممتاز کی آواز سنتی تو بے قرار ہو جاتی اور چھت سے اس کا دیدار کر آتی۔ وہ چاہتی تھی کسی طرح ممتاز کو دیکھے۔ اس سے بات کرے۔ اس نے دلیری سے کام لیا۔ اب جب بھی وہ ممتاز کی آواز سنتی چارپائی پر کھڑی ہوکر دیوار سے اس سے باتیں کرلیتی۔ کچھ دن یہ سلسلہ چلتا رہا۔
ایک روز جبکہ وہ چارپائی کو دیوار سے لگا کر ممتاز سے باتیں کررہی تھی، اس کی پھوپی وہاں آگئی۔ اس نے دونوں کو باتیں کرتے دیکھ لیا۔ وہ جل بھن کر راکھ ہوگئی۔ شہ روز کو بازو سے پکڑا اور اپنے گھر لے گئی۔ یہ سمجھی کہ پھوپی ہے کچھ رعایت کرے گی مگر اس نے رعایت نہ کی بلکہ بھائی کو اتنا بھڑکا دیا کہ وہ طیش میں آکر اپنی بیٹی کو جان سے مارنے پر تل گیا۔ تو پھوپی نے ہی بھتیجی کو کوٹھری میں چھپا دیا اور اس کی جان بچالی۔ جب غصہ ٹھنڈا ہوا تو شہ روز کے والد نے ممتاز کے باپ کو بلوایا اور کہا کہ اپنے بیٹے کو سمجھالو ورنہ میں اسے جان سے مار دوں گا۔
ایسے معاملات میں دیہاتوں میں لڑکے لڑکیوں کا جان سے گزر جانا عام بات تھی لہٰذا باپ نے گھر آکر ممتاز کو کافی سمجھایا مگر اس نے صاف کہہ دیا کہ بابا میں اپنی خالہ زاد شہ روز سے شادی کا خواہاںہوں اور آپ نے ان کی ہر شرط مان کر یہ رشتہ کرانا ہوگا۔ دیہات میں ایسے معاملات پر اکثر و بیشتر اپنی کچھ زمین یا اپنی بیٹی کا رشتہ دے کر بات منوالیتے ہیں اور برادری کے بڑوں کو بیچ میں ڈالتے ہیں تاکہ فساد نہ ہو جائے۔ پہلے ممتاز کا والد اکیلے ہی لڑکی کے باپ کے پاس گیا اور منت سماجت کی کہ شہ روز کا رشتہ میرے بیٹے کے لئے دے دو۔ بدلے میں کیا لینا ہے بتادو۔ زمین چاہئے ہو تو وہ بھی دے دوں گا مگر جواب انکار میں ملا۔
شہ روز کے والد نے اپنے ہم زلف سے کہا۔ میں بیٹی کا رشتہ اپنی بہن کو دینے کا وعدہ کرچکا ہوں اب اسے ناراض نہیں کرسکتا۔ دوبارہ آنے کی زحمت مت کرنا۔ یہاں سے مایوس ہوکر وہ زلیخا کے گھر گیا اور اس سے التجا کی کہ زلیخا بہن، ہم آپس میں رشتہ دار ہیں۔ ممتاز اور شہ روز ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں تم انہیں جدا مت کرو، یہ رشتہ چھوڑ دو میں تمہارے لڑکے کو اپنی بیٹی کا رشتہ دینے کو تیار ہوں۔ یہ عورت زمین کے لالچ میں بیٹے کی شادی شہ روز سے کرنا چاہتی تھی۔ تنگ آکر بولی۔ میرا بیٹا اسے پسند کرتا ہے وہ اس کی بچپن کی منگیتر ہے، جیسے تمہیں اپنے بیٹے کی خوشی عزیز ہے مجھے بھی ویسے ہی عزیز ہے۔ اگر میں نے ایسا کیا تو کیا میرے لڑکے کو د کھ نہیں ہوگا۔ ممتاز کا باپ مایوس ہوکر لوٹ آیا۔ زلیخا، صابر کی بہت لاڈلی بہن تھی۔ وہ اس پر جان نچھاور کرتا تھا۔ وہ بھائی کے پاس جاکر خوب روئی دھوئی، آنسو بہائے تریا چلتر سے کام لیا کہ بھائی تم خواہ مخواہ دیر کررہے ہو، ایسا نہ ہو لڑکی، لڑکا بھاگ جائیں اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں۔ ایسی سنگین بات اپنی بہن کے منہ سے سن کر صابر دنگ رہ گیا۔
ادھر شہ روز کے خالو نے بیوی سے کہا۔ ممتاز کو سمجھالو۔ وہ لوگ کسی طور ہمیں رشتہ دینے کو تیارنہیں۔ ان کے تیور کڑے ہیں ایسا نہ ہو کہ رشتے داری خراب ہو جائے۔ ماں نے بیٹے کو سمجھایا تو اس نے کہا۔ رشتہ تو آپ کو کروانا پڑے گا ورنہ مجھ مرے کا منہ دیکھنا ہوگا۔ ممتا کی ماری ڈر گئی اور بہن کے گھر گئی، بہن اور بہنوئی کے آگے جھولی پھیلائی، کہا کہ میرے لڑکے کی خوشی اسی میں ہے رشتہ آپ کے گھر ہو، میرا بیٹا غیر نہیں ہے آپ کا بھانجا ہے۔ آپ کو بھی اپنی اولاد کی خوشی پہلے مدنظر رکھنی چاہئے، پھر کسی اور کے بارے میں سوچنا چاہئے۔
رضیہ بچاری بے بس تھی، کیا کہتی لیکن صابر کسی طور موم ہو کر نہ دیا۔ اس نے کہا صفیہ بہن، کان کھول کر سن لو۔ یہ رشتہ میں اپنی بہن کو دوں گا۔ یہ ان کی امانت ہے۔ میں بہن سے رشتہ نہیں توڑ سکتا۔ اب چلی جائو اور پھر اس خواہش کو لے کر واپس مت آنا۔ اس جواب پر شہ روز کی ماں رضیہ نے ہمت کی اور بولی۔ زلیخا تمہاری بہن ہے تو صفیہ میری بہن ہے، تم اپنی بہن کو چھوٹی بیٹی کا رشتہ دے دو، میں شہ روز کا رشتہ اپنے بھانجے ممتاز کو ہی دوں گی۔
دیہات میں بھلا عورت کی کیا مجال اس طرح مرد کے سامنے آئے اور شوہر سے اس کی مرضی کے خلاف بات کرے۔ صابر نے بیوی کے منہ پر زور کا تھپڑ رسید کردیا تو صفیہ روتی ہوئی واپس چلی گئی۔ جب زلیخا کو اس بات کا علم ہوا اس نے صابر سے کہا۔ میرے بھائی بس اب تم ایک ہفتے کے اندر شادی کردو، میں شادی کی تاریخ لے کر جائوں گی۔ اس بات پر نند اور بھاوج میں تو تو میں میں ہوگئی۔ زلیخا کہتی تھی شہ روز کا رشتہ میں لوں گی اور رضیہ کہتی تھی میں تمہیں کبھی اپنی بیٹی نہ دوں گی۔ چاہے میری بہن کو رشتہ ملے نہ ملے۔
صابر گھر آیا تو بیوی اور بہن کو جھگڑتے پایا اس نے بیوی کو زدوکوب کیا۔ تبھی شہ روز سے چپ نہ رہا گیا، وہ باپ کے سامنے آگئی اور بولی۔ میں پھپھو کے بیٹے سے شادی پر راضی نہیں ہوں۔ نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے، تاہم بیٹی کے منہ سے ایسی بات سن کر صابر کے کان کھڑے ہوگئے اور اس نے بہن کو شادی کی تاریخ دے دی۔ یہ سوچ کر کہ کہیں معاملہ مزید خراب نہ ہو جائے۔ شہ روز کو پھپھو کی بہو بننا کسی طور منظور نہ تھا۔ جب باپ کھیتوں میں گیا ہوا تھا۔ وہ پڑوس میں چلی گئی اور خالہ کے چھوٹے لڑکے کو ممتاز کے گھر بھیجا، کہا۔ کل ضرور آنا۔ شہ روز بلا رہی ہے۔
ممتاز اگلے روز آیا تو شہ روز نے اسے کہا۔ مجھے یقین ہوگیا ہے کہ ابا تمہارے ساتھ میری شادی کبھی نہ کرے گا، کیونکہ اس نے پھوپی زلیخا کو تاریخ دے دی ہے۔ اب وعدہ کرو کہ تم میرا ساتھ دوگے۔ وہ بولا۔ میں وعدہ کرتا ہوں تمہارا ساتھ دوں گا مگر بارات لے کر آئوں گا۔ تمہیں بھگا کر نہیں لے جاسکتا۔ اچھا ٹھیک ہے، میں خود ابا سے بات کرتی ہوں۔ وہ سخت مضطرب تھی جونہی شام کو صابر گھر آیا اس نے کہا۔ ابا اگر تم نے میری شادی زبردستی کی تو میں مولوی صاحب سے کہہ دوں گی کہ میں اسلم سے شادی کرنا نہیں چاہتی۔ یہ شادی زبردستی کرائی جارہی ہے۔ بارات والے دن آپ کی سبکی ہوجائے گی۔ اس لئے پھپھو کو منع کردیجئے یا پھر میں گھر سے چلی جاتی ہوں۔
باپ ایک دیہاتی آدمی تھا اسے بالکل اندازہ نہ تھا کہ بیٹی ایسی بات منہ سے نکال سکتی ہے۔ وہ بری طرح طیش میں آگیا۔ بیٹی کو تھپڑ مارا پھر چلاتا ہوا گھر سے نکل گیا۔ گھر سے باہر نیم کے درخت تلے چارپائی بچھی تھی، وہ اس پر بیٹھ کر سوچوں میں گم ہوگیا۔ دو گھنٹے بعد بہت سوچ بچار کے بعد گھر لوٹ آیا اور بیوی سے کہا۔ آج تمہاری لڑکی نے گستاخی کی حد کردی ہے۔ میں اب اسے ایک لمحے اپنے گھر میں برداشت نہیں کرسکتا۔ میں نے بہت سوچا ہے، ٹھیک ہے میں اس کی شادی اس کی مرضی سے کردیتا ہوں ورنہ یہ زلیخا کا ناک میں دم کر ڈالے گی۔ مجھے اپنی بہن سے دشمنی نہیں ہے جو میں ایسی خودسر لڑکی اس کے سر ڈال دوں۔ بیٹی سے کہہ دو کہ تیار رہے میں اس کا نکاح تمہاری بہن کے گھر پر ممتاز سے کردوں گا اور اسے وہاں چھوڑ کر آجائوں گا تاکہ اس کو وہاں بھاگ کر جانے کی ضرورت نہ پڑے اور نہ ہی وہ لوگ باراتی بن کر میرے دروازے پر آئیں۔ یہ بے غیرتی مجھ سے برداشت نہ ہوگی۔ اس کے بعد میرا اس بیٹی سے کوئی واسطہ نہ ہوگا۔
بیوی یہ بات سن کر بہت پریشان ہوئی مگر شہ روز بچی تھی آئندہ پیش آنے والے سانحے سے بے خبر اگلی صبح وہ تیار ہوگئی۔ اپنا سب سے اچھا جوڑا پہن لیا اور بال بھی سنوار لئے اور چادر لپیٹ کر بیٹھ گئی۔ گرچہ ماں نے منع کیا۔ تیرے باپ نے غصے میں یہ سب کہا ہے تم اکیلی اس کے ساتھ مت جانا۔ مجھے اس کے ارادے ٹھیک نہیں لگتے۔ لڑکی نے ماں کی بات نہ سمجھی اور باپ کے ساتھ چل دی۔ صابر نے اسے ساتھ لیا اور دونوں کچی سڑک سے رواں دواں ہوگئے۔ ممتاز کے گھر کے راستہ میں دریا آتا تھا۔ جب یہ پل پر چڑھنے لگے تو صابر نے کہا۔ شہ روز مجھے پیاس لگی ہے کیا تمہیں نہیں لگی۔
ہاں ابا … دھوپ تیز ہے پیاس تو مجھے بھی لگی ہے مگر ہمارے پاس برتن نہیں ہے۔ کوئی بات نہیں ہم اوک سے پانی پی لیتے ہیں۔ آئو۔
وہ پل سے اتر گیا اور دریا کے کنارے بیٹھ کر ہاتھوں سے پانی پینے لگا۔ شہ روز نے بھی ایسا ہی کیا وہ باپ کے نزدیک بیٹھ گئی اور ہاتھوں کی اوک بنا کر پیاس بجھانے لگی، اچانک صابر نے اسے پانی میں دھکا دے دیا اور پلٹ کر دیکھے بغیر واپس ہولیا۔ اپنی دانست میں اس نے بیٹی کو دریا برد کردیا تھا۔ جب وہ واپس آیا تو بیوی نے پوچھا۔ کیا تم جلدی نہیں آگئے۔ اسے شک تھا کہ نہ ماننے والا شخص کیسے شہ روز کا نکاح اس کے بھانجے سے کرنے پر راضی ہوگیا ہے۔آناً فاناً ایسا ممکن ہی نہیں تھا۔ ضرور اس نے کوئی گڑ بڑ کی ہے۔
جب شوہر نے کوئی جواب نہ دیا تو رضیہ نے بغور صابر کے چہرے کی جانب دیکھا، جیسے وہ اسے پڑھنے کی کوشش کررہی ہو اور بغیر کچھ کہے سنے اس نے سب کچھ پڑھ لیا۔ صابر اپنے کمرے میںجاکرچارپائی پر خاموش لیٹ گیا مگر بیوی ہولے ہولے بین کرنے لگی۔
کہتے ہیں کہ جسے اللہ رکھے اُسے کون چکھے۔ شہ روز کو لہروں میں ابھرتی ڈوبتی دیکھ کر ایک ماہی گیر دوڑا ہوا آیا جو کچھ دوری پر یہ منظر دیکھ چکا تھا۔ اس نے تیزی سے پل پڑ چڑھ کر دریا میں چھلانگ لگادی اور لڑکی کو ڈوبنے سے بچالیا۔ ضروری امداد دینے کے بعد ماہی گیر شہ روز کو گھر لے گیا۔ جب اسے ہوش آیا اور طبیعت سنبھل گئی، اس نے اپنی جان بچانے والے کو خالو کا پتا دیا۔ ماہی گیر ان کو جانتا تھا۔ وہ ممتاز کے گھر گیا اور انہیں بتادیا کہ ساتھ والی بستی کی لڑکی شہ روز ان کے گھر پر ہے اور آپ لوگوں کو بلا رہی ہے۔
تمام قصہ سن کر ممتاز کے والد اور بیٹے ماہی گیر کے گھر گئے اور شہ روز کو لے آئے۔ یوں اس کا نکاح واقعی ممتاز کے گھر پر ہوا لیکن صابر وہاں نہیں تھا وہ یہی سمجھا کہ ناخلف اولاد کو دریا نگل گیا ہے۔ شہ روز کو نئی زندگی مل گئی وہ خوش تھی مگر اپنے والد کی سنگدلی کا بھی ملال تھا۔ جب غصے کی آندھی تھم گئی اور عقل ٹھکانے آگئی تو صابر کو سخت ملال ہوا کہ یہ میں نے کیا کردیا۔ اسے اپنے ہاتھوں اپنی پیاری بیٹی کو دریا برد کردیا۔
اب وہ اپنی سنگ دلی پر پچھتانے لگا۔ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ قدرت شہ روز کو بچالے گی۔ عرصہ بعد اسے علم ہوا کہ شہ روز زندہ ہے اور اپنی خالہ اور خالو کے گھر ممتاز کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہی ہے تو اس کو یک گونا سکون ہوا۔ اس نے اللہ کا شکر ادا کیا جس نے اسے اپنی بیٹی کا قاتل ہونے سے بچالیا تھا۔ تاہم اس نے بیٹی سے پھر بھی ناتا نہ رکھا اور نہ ممتاز کے گھر والوں سے صلح کی۔ شہ روز کی ماں بھی خوش تھی کہ اس کی بچی زندہ اور سکھی ہے۔ اگر ناخوش تھی تو زلیخا جو اب بھی اسے بدچلن کہتی اور بددعائیں دیتی تھی۔
(س۔ کراچی