Char Ratain By Faizan Ahmed Episode 3
Char Ratain is Latest Novel By Faizan Ahmed. This one is a horror number. Read here Episode 3 and share your views on Episode 3 of Chaar Ratain.
Thank you for reading this post, don't forget to subscribe and find best Urdu Reading Material at Caretofun.
Join Our Whatsapp Channel
Follow Our Facebook page
چار راتیں
Horror Novel
میں غصے میں اپنی جگہ سے اٹھا اور ساشہ کے پاس آکر اسے کھڑکی سے باہر کی طرف اشارہ کیا، وہ دیکھو باہر کا دروازہ!!
ساشہ بے یقینی کی کیفیت میں اس طرف دیکھنے لگی ، میری نظرنے اس کی نظر کا تعاقب کیا اور دروازے کی طرف دیکھ کر مجھے حیرت کا ایک اور جھٹکا لگا۔
“ارے کیا دکھا رہے ہیں آمش؟” ساشہ نے استفسار کیا
“کچھ نہیں یار، مجھے لگا دروازہ کھلا رہ گیا ہے” بہانہ بنا کر خود کو مطمئن ظاہر کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
“افف، آمش آپ کی ناک سے خون بہ رہا ہے ا ب بھی، اسے واش کریں میں دوائی لگا دیتی ہوں” ساشہ نے قریب سے دیکھ کر پریشان کن لہجے میں کہا اور خود دوائی لینے کے لئے دوڑی۔
میں جلدی سے روم میں موجود واش روم کی طرف گیا اور دروازہ ادھ کھلا چھوڑ کر واش بیسن کے اوپر آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے لگا۔
میرے عقب میں واش روم کا دروازہ موجود تھا جو آئینے سے میری نظر کے حصار میں تھا۔
اپنی ناک میں پانی ڈال کر میں نے نگاہ آئینے پر اٹھائی اور عین اسی وقت دروازہ ایک جھٹکے سے بند ہوا تھا۔
قریب تھا کے میں اس اچانک روداد سے بے ہوش ہو کر گر جاتا۔
میرے اوسان خطا ہو چکے تھے۔میں اپنی جگہ سے نہ ہلا ، دل ڈھے گیا تھا۔ میں نے آنکھیں بند کر کے واش بیسن پر اپنا سر جھکا لیا۔
کسی ہارے ہوئے انسان کی طرح۔
میں خود میں اتنی سکت محسوس نہیں کر رہا تھا کے اب اس جنگ کا سامنہ کر سکوں۔
ایک گھری سانس چھوڑ کر میں نے سر اٹھایا اور شیشے میں اپنے پیچھے کسی کو دیکھ کر دہل کر رہ گیا۔
پہلی جھلک میں مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میری بیوی نہیں کوئ اور عورت ہے۔ میرا گمان تھا کے شاید یہ وہ لڑکی ہے جسے میں نے کچل دیا تھا۔
میں فوراپیچھے پلٹا ،ابھرتی سانس ایک دم ساکن ہوئی تھی، ساشہ کو سامنے پایا۔
تم اندر کب آئ اور کیسے؟؟ میرے ہاتھ ابھی بھی لرز رہے تھے۔
مجھ پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے اور ساشہ نہایت پر سکون انداز میں ہاتھ میں دوائ اور روئ لئے لگانے کی تیاری کر رہی تھی۔
میں حیرت سے اسے دیکھتا رہا اور وہ میری ناک سے خون صاف کر کے دوائ لگانے لگی۔
وہ دھیرے دھیرے مجھے محبت پاش نظروں سے دیکھتے ہوۓ میرے ناک کو صاف کر رہی تھی
مجھے اپنے وجود کی ساری تکلیف، خوف اور ساری تکھاوٹ دور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔
میری بیوی کا شمار دنیا کی خوبصورت عورتوں میں ہوتا تھا۔
ستواں ناک ، چندن روپ، بھرے بھرے لب ۔ مڑی ہوئی پلکوں کے نیچے ڈھکی ہوئی لمبی آنکھیں۔
تھوڑی دیر کے لیے جیسے میں اپنے ڈر کو بھول کر اس کے دلکش چہرے میں اپنا سکون تلاش کرنے لگا تھا۔
اس کی کمر کے گرد نرمی سے بازو حائل کر کے میں نے اسے اپنے قریب کیا تھا۔ اس کے وجود کی نرماہٹ آج بھی میرے اندر ویسا ہی سکون اتار رہی تھی ، جیسا ہمیشہ سے تھا۔
میں نے اسے اپنے سینے میں سمیٹا تھا۔ اور بازوؤں کی گرفت مضبوط کر لی تھی، میں اس سے بہت محبت کرتا تھا۔
دھیرے سے اس کے ہاتھ تھام کر چہرے سے ہٹایا اور سائڈ پر کیا۔ ہمارے بیچ سے ہوا کا گزر روک دیا تھا ۔ جزب کے عالم میں اسے سینے سے لگائے آنکھیں بند کر لی تھیں۔ دھیرے سے اس کی گردن کے دائیں طرف لب رکھے تھے اور میری ناک اس کی گردن کو چھو رہی تھی۔ میں سب کچھ بھولنے کی کوشش میں لگا تھا۔
میرے دل میں ہر لمحہ کچھ برا ہو جانے کے خیالات جنم لے رہے تھے۔
کتنے ہی لمحے میں ایک سہمے ہوۓ بچے کی طرح اس کے ساتھ چپکا رہا تھا
ساشہ مجھ سے علیحدہ ہوئ اور مسکرا دی ۔ دل کو کچھ ڈھارس بندھی تھی۔
وہ مسکرا کر ایک بار پھر میری ناک سے رستے خون کے قطرے صاف کرنے لگی۔
میں نے سر اوپر جانب کر کے آنکھیں موند لیں کے اچانک اس کے ہاتھ کا ناخن یہ غالباً کوئی بہت نوکیلی چیز میری ناک میں لگ گئی ۔ میں چلا اٹھا اور درد سے کراہنے لگا، وہ خون دیکھ کر دروازے کی طرف لپکی اور کچھ لینے کی غرض سے باہر کی جانب دوڑ لگائی۔
میں تکلیف سے کراہنے لگا، وہ نوکیلی چیز میری ناک کی ہڈی پر چبھی تھی اور خون تیزی سے رستے ہوئے میری شرٹ پر ٹپک رہا تھا۔ میں دوبارہ واش بیسن کی طرف جھک گیا اور ناک پر پانی مارنے لگا۔
خون رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا، میں فوراً پلٹا اور تولیہ اٹھا کر ناک پر رکھ کے باہر کی طرف دوڑا، باتھ روم سے باہر نکلا ہی تھا کے ساشہ کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔
خون تیزی سے بہے رہا تھا اور گلابی تولیہ لال ہو گیا تھا۔
ساشہ مجھے دیکھ کر پریشان ہو گئی، اس کے ہاتھ میں فرسٹ ایڈ باکس تھا۔
” یہ کیا لگ گیا، کیا کیا تھا تم نے؟ ” میں نے اسے دیکھتے ہی بے ساختہ سوال اٹھایا
میری نظر اس کے ہاتھ پر پڑی اور اس کے ناخن ہمیشہ کی طرح چھوٹے تھے، میں بے یقینی کے انداز میں کبھی اس کی طرف جواب طلب نظروں سے دیکھتا تو کبھی اس کے ہاتھ کی طرف۔
“کیا مطلب؟ میں نے کیا کر دیا؟ اور یہ اتنا سارا خون کیسے بہنے لگا؟ وہ تیزی سے بہتا خون اور لال تولیہ دیکھ کر پریشان ہو گئی تھی اور میری ناک کا جائزہ لینے کی غرض سے اسے چھونا چاہتی تھی۔
میں نے جھٹکے سے اس کا ہاتھ ہٹایا، ساشہ کی بات سن کر مجھے چکر آنے لگے اور میرے ہوش جاتے رہے۔
آمش نے اپنے ساتھ ہونے والی ہر بات الف سے ی تک شایان کو کہ سنائی۔
شایان یہ سب باتیں سن کر کسی گھری سوچ میں ڈوب گیا ۔
وہ دونوں اس وقت آمش کے روم میں موجود تھے۔
آمش کی بے ہوشی کے کچھ دیر بعد ہی شایان وہاں پہنچا تھااور شایان نے ساشہ کی ہی مدد سے اسے اٹھا کر روم میں بیڈ پر لٹا دیا تھا۔
“یار تجھے پتا ہے جب میں تجھ سے ملنے تیرے گھر آیا توساشہ نے کیا کہا مجھ سے” شایان نے نظریں اٹھا کر استفسار کیا۔
“کیا کہا” آمش نے جواب طلب نظروں سے دریافت کیا
“ساشہ نے بتایا کے یہ کچھ دن سےعجیب باتیں کر رہے ہیں اور ان کا رویہ بھی کچھ نہ سمجھ آنے والا ہے،یہ مجھے ڈرے ڈرے سے لگتے ہیں اور ہم دونوں سے بھی زیادہ بات نہیں کر رہے، ایک دو بار مجھے کمر پر چوٹ کے نشان دکھائے لیکن کچھ بھی نہیں تھا، پھر ابھی آپ کے آنے سے پہلے بھی باہر کے گیٹ کی طرف کچھ دکھا رہے تھے لیکن وہاں بھی کچھ نہیں تھا، اور پھران کا ایسے ٹیبل سے گر جانا اور خون کا اتنا زیادہ بڑھ جانا کچھ سمجھ نہیں آرہا” شایان نے وہ تمام باتیں آمش کو بتا دیں جو ساشہ نے اس سے کہی تھیں۔
“لیکن ایک منٹ” شایان نے کچھ سوچ کرایک دم رکا تھا اور انگلی اپنی ٹھوڑی پر رکھتے ہوئے بولا۔
“کیا ہوا؟” آمش نے دریافت کیا
“تمہارے مطابق پہلی رات کو جب تمہیں کسی نے کمرے سے باہر کھینچنے کی کوشش کی تو تمہارے چیخنے چلانے پر ساشہ اور حمنہ نہیں اٹھی؟ رائٹ” شایان نے وضاحت طلب کی۔
“ہاں اگزیکٹلی! میں چیختا رہا اور وہ دونوں نہیں اٹھی، اور صبح اس نے بتایا کے میری کوئی آواز اس نے نہیں سنی” آمش نے دماغ پر زور ڈالتے ہوئے بتایا۔
” اور پھر ایک بار اور جب رات میں تم کچن میں گئے تب بھی تمہارے ساتھ جو کچھ ہوا ، فرج کا اچانک کھلنا اور تمہیں لگنا اور ان سب باتوں کا شور وغیرہ ، ساشہ نے کچھ نہیں سنا؟” شایان نے گتھیاں سلجھانے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا۔
“ہاں یار اس روز بھی میرے ساتھ جو ہوا انہیں کچھ نہیں پتہ اور نہ میں نے بتایا، میں اسے پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔” آمش نے روانگی میں بتایا
“لیکن ” آمش کچھ سوچ کر ماتھے پر گھرے بل ڈالتے ہوئے بولا
“کیا ہوا” شایان نے دریافت کیا
” یار اس روز میں نے ساری لائٹ آن کی تھیں اور واپس جاتے ہوئے بند نہیں کیں، تو کیا جب ساشہ نے صبح دیکھا ہوگا تو نوٹ نہیں کیا ہوگا کے کافی لائٹس آن ہیں جو وہ خود رات کو سونے سے پہلے بند کرتی ہے” آمش نے شایان کے سامنے خود سے سوال کیا
“اگر تو صبح ساشہ کے اٹھنے تک ساری لائٹس آن رہی ہیں تو وہ ضرور پوچھتی تم سے، کیا خیال ہے” شایان نے استفسار کیا
“میرا خیال ہے تو ایک کام کر ” شایان نے اب کی بار کچھ سوچ کر مشورہ کن انداز میں الفاظ جوڑے تھے۔
“تیرے ساتھ دو بار رات میں یہ عجیب واقعہ پیش آیا ہے، اور دن میں تو کچھ ایسا خاص نہیں ہوتا نہ” شایان نے سوال کر کے جواب طلب نظروں سے آمش کی طرف دیکھا
“ہاں” آمش نے بجھے ہوئے لہجے میں جواب دیا جیسے ان واقعات کو سوچ کر اس کی روح چھلنی ہو گئی ہو۔
“تو پھر تیرے گھر میں کامن روم میں یہ جس بھی جگہ سی سی ٹی وی کیمرہ لگا ہوا ہے تو رات کو اسی جگہ پر سو نا شروع کر دے، اور خدا نہ کرے ایسا کچھ واقعہ پیش آتا ہے تو ہم چیک کر سکتے ہیں کے وہ کیا چیز ہے جو تجھے تنگ کر رہی ہے۔اتنا تو مجھے اندازہ ہو گیا ہے کے وہ جس لڑکی کو تو نے مارا تھا ان سب چیزوں کا اس سے ضرور کو تعلق ہے” شایان نے قریب ہوکے آمش کو سی سی ٹی وی کے علاوہ کچھ چیزوں کا مشورہ دیا۔
“ویسے تو نے بہت ہی غلط کیا یار، تو نے لوگوں کے ڈر سے اور پولیس کیس سے بچنے کے لئے اس عورت اور بچی کے بارے میں دوبارہ کچھ جاننے کی کوشش بھی نہیں کی۔۔۔” شایان نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
“چل ایک کام کرتے ہیں، دونو ں وہاں چلتے ہیں اور وہاں کا جائزہ لیتے ہیں اور اگر کو ئی اس علاقے میں نظر آیا تو ان سے پتہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں” شایان نے معنی خیز نگاہیں آمش کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا
“نہیں نہیں ، وہاں نہیں جانا ، ایک تو کسی سے پوچھیں گے تو الٹا ہم پر شک کرے گا، دوسرا اس جگہ سے مجھے ویسے ہی ڈر لگنے لگا ہے” آمش نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا۔
“او ہ یار کچھ نہیں ہوتا ، تو چل تو صحیح میرے ساتھ، مجھے اصل جگہ معلوم ہوتی تو میں اکیلا ہی جا کر دیکھ آتا لیکن تیرا ساتھ آنا ضروری ہے، ابھی ویسے بھی شام کا وقت ہے ہم جا کر دیکھ آتے ہیں” شایان نے زور دیتے ہوئے کہا جس پر آمش کسی حد تک راضی ہو گیا۔
“چل تو پھر جلدی کر، مغرب سے پہلے وہاں دیکھ کر آتے ہیں” آمش نے فوری طور پر اپنا ڈر ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
کچھ دیر میں دونوں گاڑی میں موجود تھے اور گاڑی اس سڑک کی طرف دوڑ رہی تھی۔
عین اس جگہ پر آمش نے اپنے اندازے اور آس پاس کے درخت دیکھ کر گاڑی رکوائی اور وہ دونوں اس جگہ کی طرف بڑھنے لگے جہاں آمش کے اندازے کے مطابق وہ عورت اور بچی اس کی گاڑی کی ٹکر سے جا کر گرے تھے۔
Please support us by providing your important feedback:
Share this post as much as possible at all platforms and social media such as Facebook, Twitter, Pinterest & Whatsapp. Share with your friends and family members so that we are encourage more and more to bring you much more that you want. Be supportive and share your comments in below comments section. So that we can be aware of your views regarding our website.
Your best Urdu Digest, Novels, Afsanay, Short Stories, Episodic Stories, funny books and your requested novels will be available on your request.