Char Ratain is Latest Novel By Faizan Ahmed. This one is a horror number. Read here Episode 2 and share your views on Episode 2 of Chaar Ratain.
Thank you for reading this post, don't forget to subscribe and find best Urdu Reading Material at Caretofun.
Join Our Whatsapp Channel
Follow Our Facebook page
چار راتیں
Horror Novel
یہ منظر دیکھ کر میرا دل اچھل کر حلق تک آگیا اور میں تقریباً چِیخ اٹھا تھا لیکن میری چیخ میرے حلق میں گھٹ کر رہ گئی ، جلد احساس ہو گیا کے میں کسی بڑی مصیبت میں گرفتار ہو گیا ہوں، یہ دوسری بار رات کے وقت میں ایسے حالات کا سامنہ کر رہا تھا۔
میرا پورا وجود تھر تھراہٹ کی زد میں آگیا، میں بولنا چاہ کر بھی کچھ نہیں بول پا رہا تھا۔
آنکھیں اچھی طرح مل کر دوبارہ کھولیں اور غور سے دیکھنے کی کوشش کی، شاید یہ میرا وہم ہو ، لیکن وہ میری آنکھوں کا دھوکا نہیں تھا۔
وہ ہاتھ کسی چھوٹی بچی کا معلوم ہو رہا تھا جو کلائیوں سے کچھ اوپر تک کا حصہ کھڑکی کے باہر لٹک رہا تھا ، گویا کھڑکی کے عین اوپر ہاتھ کا بقیہ حصہ موجود ہو اور کچھ حصہ نیچے لٹکایا ہوا ہو۔
چند لمحوں میں ہی میں پوری طرح پسینے میں بھیگ چکا تھا اور وہ ہاتھ مسلسل اسی انداز میں ہل رہا تھا جیسے کوئی بچی چلتی ہوئی جا رہی ہو اور اس کا ہاتھ ہل رہا ہو، یہ پھر پنڈیولم کی مانند۔ ہاتھ کی پشت کھڑکی کی طرف اس طورپر ظاہر تھی کے چلنے والی کا رخ میرے دائیں جانب سامنے کی طرف ہو۔
“ساشہ، اٹھو پلیز ساشہ۔۔۔۔سس س سا ساشہ۔۔ اٹھو یار ۔۔ “میں دبی ہوئی گھبرائی آواز میں اس ہاتھ کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی بیوی کو جگا رہا تھا جو اس وقت گہری نیند میں تھی۔
“ساشا ا ا ۔۔۔۔ پلیز یار اٹھو جلدی سے” اسے کندھے سے ہلاتے ہوئے میں بمشکل بول پا رہا تھا۔
شاشہ پر نیند اتنی طاری تھی کے میرے جگانے کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔
“ساشہ اٹھووو جلدی” اس بار اونچی آواز نکال کر میں نے ساشہ کو جھنجھوڑا جو آنکھیں ملتی ہوئی اٹھ بیٹھی اور اس ٹائم جگانے پر بے یقینی کی حالت میں مجھے دیکھنے لگی، حمنہ کو اٹھا کر اپنی گود میں لیا اور جلدی سے سینے سے لگا لیا۔
“کیا ہوا آمش ، کیوں جگایا ہے؟” ساشہ اٹھ کر پوری طرح بیٹھ چکی تھی اور بلکل نارمل انداز میں مجھ سے پوچھ رہی تھی۔
آنکھوں کے اشارے سے اسے کھڑکی کی طرف دیکھنے کا اشارہ کیا جہاں میں ایک چھوٹی بچی کے ہاتھ کا کچھ حصہ دائیں سے بائیں حرکت کرتے دیکھ رہا تھا
“کیا ہوا بھئی؟ کیا کہ رہے ہیں” وہ بے زاریت سے ایک نظر میری نظر کے تعاقب میں کھڑکی پر لے گئی اور واپس پوچھنے لگی۔
“وہ دیکھو ساشہ سامنے کھڑکی کے اوپر کی طرف” ڈرتے ڈرتے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا اور حمنہ کو زور سے گلے لگا لیا تھا۔
“ہاں بھئی دیکھ تو رہی ہوں ؟ کیا ہوا کھڑکی کو” اس نے اس درجہ مطمئن ہو کر پوچھا کے میں سمجھے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔
“کیا اس ہاتھ کو صرف میں ہی دیکھ رہا ہوں” خود سے کہ کر میں ساشہ کی طرف حیرانگی سے دیکھنے لگا۔
میرا دل اتنا تیز دھڑک رہا تھا کے میں باہر تک دھڑکن محسوس کر سکتا تھا۔
“ساشہ وہ دیکھو کھڑکی سے باہر” میرے لہجے میں اب غصہ اور بے چارگی امڈ آئی
“کیا ہے کھڑکی سے باہر”ساشہ بیڈ سے اتر کر سیدھی کھڑکی کی جانب بڑھی۔
یہ ایک لمحے کا وقفہ تھا جب میں نے کھڑکی سے نظر ہٹا کر ساشہ پر جمائی تھی اور اس کے بیڈ سے اترنے کے بعد دوبارہ کھڑکی کی طرف۔
اب وہاں کچھ نہیں تھا!!!!
مجھے ایک بار پھر حیرت کا جھٹکا لگا ۔
“کیا ہو گیا ہے آمش ؟ کیا ہے ادھر آپ کس چیز کی بات کر رہے ہیں” ساشہ کھڑکی کے آگے میری طرف منہ کر کے کھڑی مجھ سے سوال کر رہی تھی اور میری نظر اس کے سر کے اوپر اس جگہ پر ٹکی ہوئی تھیں جہاں چند
ثانئے پہلے ایک چھوٹی بچی کا ہاتھ لٹکتا ہوا نظر آرہا تھا۔
عین اسی لمحے میرے ذہن میں اس لڑکی اور بچی کی ایک جھلک نمودار ہوئی تھی جسے میں نے اپنی گاڑی سے اڑا دیا تھا، وہ ایک جھلک جو میں نے ایکسیڈنٹ سے پہلے دیکھی تھی۔
ایکسیڈینٹ کا وہ منظر میری آنکھوں میں ایک بار پھر گھوم گیا ۔ساشہ بدستور وہیں کھڑی مجھ سے سوال کر رہی تھی لیکن میرا ذہن کہیں اور ہی چلا گیا تھا۔
وہ واپس اپنی جگہ پر آ گئی، حمنہ کو مجھ سے واپس لیا اور بیڈ پر لٹا کر خود بھی دوسری طرف رخ کر کے لیٹ گئی۔۔
“سو جائیں آمش، آپ نے کوئی خواب دیکھا ہے۔۔
میں کتنی ہی دیر تک کھڑکی کو ایک ٹک دیکھتا رہا ، اسے اپنا وہم اور خواب سمجھ کر خود کو تسلی دیتا رہا۔ دھڑکن اب قدرے نارمل ہو چکی تھی اور سانسیں بحال۔
نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی اور نظریں کھڑکی سے ہٹنے کا نام نہ لیتی تھیں۔
ہر لمحے مجھے ایسا محسوس ہوتا جیسے وہ ہاتھ دوبارہ آکر لٹک جائے گا۔
صبح کے پانچ بج گئے تھے اور ہلکی روشنی پھوٹنا شروع ہو گئی تھی ، میرا ذہن ان تمام واقعات کو لیکرخیالات کا ایک مجموعہ بن چکا تھا۔ سونے کی لاکھ کوشش کے باوجود میں خود کو ان خیالات سے چھڑانے میں ناکام تھا ۔
پیاس کے احساس نے توجہ ہٹائی اور میں نے پاس رکھی پانی کی بوتل اٹھائی لیکن وہ خالی تھی۔ میں اٹھ کر کمرے سے نکلنے لگا ہی تھا کے ایک بار پھر میرے ذہن میں رات کا وہ منظر گھوم گیا۔۔
اس خیال کو جھٹک کر کچن کی طرف بڑھا ، ہر لمحے مجھے ایک انجانہ سا ڈر اور خوف کا احساس گھیرے ہوئے تھا۔اپنے روم سے نکل کر ہر گزرنے والی جگہ کی لائٹ آن کرتا جا رہا تھا اور کچن میں پہنچ کر سب سے پہلے لائٹ آن کی۔
گلاس ڈھونڈ کر فرج کی طرف بڑھا اور اس کا بڑا دروازہ کھولنے کی غرض سے جیسے ہی کھینچا وہ لاک تھا۔
ہر معمولی چیز بھی مجھے اب ایک خطرہ محسوس ہو رہی تھی۔ فرج کا دروازہ ایسے غیر معمولی طور پر بند ہونا ایک بار پھر میرے لئے گھبراہٹ اور ڈر کا سبب بن گیا تھا۔
ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کے فرج کا دروازہ لاک ہو،اس پر کوئی لاک موجود ہی نہیں تھا۔ البتہ کبھی کبھار فرج ایک بار کھول کر بند کرنے اور فوراً واپس کھولنے میں ایسی صورت پیدا ہو جاتی ہے کہ گیس کے دباؤ سے دروازہ جام ہو جاتا ہے، البتہ کچھ دیر ٹہر کر کھل جاتا ہے۔ جو ایک عام سی بات ہے لیکن اس وقت میں بہت زور لگا کر بھی فرج کھولنے سے قاصر تھا۔
حیرانگی کی بات یہ تھی کے فرج کو آخری دفعہ استعمال کئے ہوئے کئی گھنٹے گزر چکے تھے اور میں جتنی قوت آزمائی کر رہا تھا فرج کو آسانی سے کھل جانا چا ہئے تھا۔
اب کی بار میں گلاس ایک طرف رکھ کر بہت زور سے فرج ڈور کھولنے کی کوشش کر رہا تھا، ایک پاؤں اس کے پچھلے حصے پر ٹکا کر پیر کا زور بھی لگا لیا لیکن دروازہ نہیں کھلا، مجھے ڈر تھا کے مزید زور لگایا تو وہ اپنی جگہ سے ہل جائے گا یا گر جائے گا۔
پریشانی بڑھ چکی تھی اور میں اس نئی افتاد کے لئے تیار نہیں تھا۔ جسم ایک بار پھر پسینے میں ڈوبنا شروع ہو گیا تھا اور میرے اعصاب جواب دے چکے تھے۔
مجبوراً ٹھنڈے پانی کا ارادہ ترک کر کے میں نے جلدی سے گلاس اٹھایا اور سنک میں سے سادا پانی بھر کر پی لیا ۔ گلاس واپس رکھ کر میں کچن سے باہر نکلنے کو تھا کے ایک بار پھر فرج سامنے دیکھ کر اس کے دروازے کے ہینڈل کو پکڑا۔
دروازہ اس بار معمولی ہاتھ لگنے سے اتنی زور سے کھلا مکمل طور پر کھل گیا جیسے کسی نے اندر سے بہت زور دار دھکا دیا ہو ، مجھے دروازہ کھل کے اتنی زور سے لگا کے میں پیچھے دیوار کے پاس جا کر گرا۔
فرج میں موجود ہر چیز یہاں تک کے دروازے پر رکھی بوتلیں بھی بلکل صحیح اپنی جگہ پر تھیں اور اتنی زور سے کھلنے کے باوجود و ہ ہلی بھی نہیں تھیں۔ عام حالت میں اتنی زور سے دروازہ کھلنے سے اندر کی چیزیں باہر نکل کر گرنا یقینی تھا۔
آؤ دیکھا نا تاؤ میں کچن سے باہر کی طرف بھاگا ، نہ لائٹ بند کر سکا نہ ہی فرج کا دروازہ اور سیدھا اپنے کمرے کی طرف دوڑ لگائی۔
گھر کا اندرونی حصہ اندھیرے کی لپیٹ میں تھا۔
کمرے کے دروازے پر پہنچ کر جونہی میں نے دروازے کے لاک کی طرف ہاتھ بڑھایا، میں دو تین قدم پیچھے کھچ گیا۔
مجھے کسی نے نہیں پکڑا تھا نہ ہی کسی نے پیچھے دھکیلا تھا۔
اب کی بار میں اپنے پورے ہوش و ہواس میں یہ کھچاؤ محسوس کیا تھا اور مجھےپورا یقین ہو گیا تھا کے میرے ساتھ کوئی انجان طاقت موجود ہے جو صرف میری حد تک محدود ہے ۔
دوبارہ تیزی سے قدم بڑھا کر لاک کو تھاما اور جلدی سے گھما کر کمرے میں داخل ہو گیا۔ یہ سب کچھ اتنا آناً فاناً ہوا کے میں کچن سے دیوانہ وار بھاگا تھا اور بغیر کسی لائٹ بند کئے سیدھا کمرے میں گھس گیا۔
بیڈ پر میری بیوی اور بیٹی پر سکون انداز میں سوئے ہوئے تھے اور میں ایک قرب اور عذاب سے گزر رہا تھا۔
میں بیڈ پر لیٹ کر ایک بار پھر ان خیالات کی نظر ہو گیا تھا۔ ایکسیڈینٹ سے لے کر قدم پیجھے کھچ جانے تک اور گزشتہ دنوں کے غیر معمولی واقعات سب مجھے اسی ایکسیڈنٹ کی وجہ محسوس ہو رہے تھے، لیکن اب کیا ہو سکتا ہے۔ کیسے میں ان حالات پر قابو پاؤں۔ کیسے میں خود کو اور اپنے گھر کو ان چیزوں سے بچاؤں ۔ بہت دیر تک یہی سب سوچتے سوچتے میری نہ جانے کس وقت آنکھ لگ گئی تھی ۔
قریباً گیارہ بجے کے وقت میرے موبائل پر مسلسل بجتی بیل سے میری آنکھ کھلی ۔
دوسری طرف میرا آفس کولیگ شایان تھا جو اب تک آفس نہ پہنچنے کی وجہ دریافت کر رہا تھا
“یار آج میں نہیں آسکوں گا، طبیعت ٹھیک نہیں ہے” کہ کر میں نے جان چھڑانی چاہی
“کیا ہوا تجھے بھائی آج کل تو کچھ عجیب بی ہیو کر رہا ہے، پہلے تو میں نے ہی یہ بات محسوس کی تھی لیکن ا ب تیرا ذکر آیا تو ایک دو اور لوگوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے” وہ میری پریشانی کی وجہ جاننا چاہتا تھا۔
شایان میرا پرانا دوست اور آفس میں بھی ساتھ کام کرتا تھا اور میں اپنی ہر بات ہی اس سے شیئر کرتا تھا لیکن نہ جانے کیوں اب تک یہ بات میں اس سے شیئر نہیں کر سکا تھا۔
“یار تو آج آفس کے بعد میرے پاس چکر لگا، کچھ بات کرنی ہے ضروری۔” میری آواز نیند میں ڈوبی ہوئی تھی ، شایان نے بھی زیادہ سوال نہیں کئے اور آنے کا کہ کر فون بند کر دیا۔
دوپہر کا ٹائم تھا، میں روم میں بیٹھا لیپ ٹاپ پر آفس کی ای میلز چیک کر رہا تھا، اچانک ایک زور دار آواز سے میں چونک کر رہ گیا۔آواز باہر کی طرف سے آئی تھی اور کسی لوہے کی چیز کے ٹکرانے کی معلوم ہوتی تھی۔
میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اور اندازے کے مطابق کمرے کی بائیں طرف کھڑکی کی جانب بڑھا، آواز چونکہ بائیں طرف سے آئی تھی اور موجودہ کمرے سے بیرونی دروازہ بائیں طرف والی کھڑکی سے نظر آتا تھا۔ کمرے میں موجود کھڑکی سے باہر کا جائزہ لینے کی کوشش کرنے لگا لیکن باہر کھڑکی سے باہر پیڑ کی وجہ سے مکمل طور پر نہیں دیکھ پا رہا تھا۔
قریبی ٹیبل کو پاس کھینچ کر اس پر کھڑے ہو کر کھڑکی کے ایک کنارے سے دیکھنے کی کوشش کی ،میری نظر بیرونی گیٹ پر پڑی تھی اور اوسان خطا ہو گئے۔
میری گاڑی جو گھر کے اندرونی حصے میں پارک ہوتی تھی، بیرونی دروازے کے ساتھ باہر سے ٹکرائی ہوئی تھی اور دروازہ ایک کسی حد تک اندر کی جانب جھک گیا تھا۔ وہ لوہے کا ایک وسیع اور مظبوط دروازہ تھا جو بنا کسی بڑی چیز کے ٹکرانے سے ایسے نہیں ٹوٹ سکتا تھا۔ دروازہ اندر جھکا ہوا اور گاڑی باہر اس سے لگی ہوئی دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کے گاڑی باہر کی طرف سے دروازے سے ٹکرائی ہے۔
میں ٹیبل پر اچک کر دیکھتے ہوئے صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا، اور نیچے جا کر دیکھنے کا ارادہ کیا ہی تھا کے اپنے پیچھے کسی کی آہٹ محسوس ہوئی ، بے ساختہ پلٹ کر دیکھا لیکن پیچھے کوئی بھی موجود نہیں تھا۔
جلدی سے ٹیبل سے اترنے کی غرض سے نیچے نگاہ کری تو میرے لیئے دوسرا جھٹکا تھا، میں ہوا میں کھڑا تھا اور ٹیبل اپنی وہی پرانی جگہ پر موجود تھی۔ اس سے پہلے کے میرا بھک سے اڑا، چھلانگ لگا کر فوراً اس ٹیبل سے
نیچے اترا جس کے اوپر میں تھا ہی نہیں۔
قدم زمین پر رکھتے ہی لڑکھڑا گئے اور میں سنبھل نہ سکا ، منہ کے بل زمین پر گرا جس کی وجہ سے سر زور سے زمین سے ٹکرایا تھا اور ناک سے خون نکلنے لگا۔
میرے لئے اب ان حالات کا مقابلہ کرنا نہ ممکن ہو گیا تھا، شایان نے شام کو آنا تھا اور میں گھر سے ابھی ہی بھاگ جانا چاہتا تھا۔
“ساشہ ا ا”
“ساشہ ادھر آؤ جلدی سے” زور سے آواز لگا کر ساشہ کو بلایا
ساشہ میری آواز سن کر جلدی سے کمرے میں آئی۔۔”ارے یہ کیا ہوا؟ آپ کی ناک سے خون کیوں بہ رہا ہے” ساشہ نے مجھے زمین پر اس حالت میں دیکھتے ہی پوچھا۔
“گر گیا یار” میں نے بے بسی کے انداز میں کہا۔
“باہر دیکھو ذرا گھر کے گیٹ کو” کھڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ساشہ سے کہا جو اپنا دوپٹہ لئے اب میری ناک سے خون صاف کر رہی تھی۔
“کیا ہوا باہر کے گیٹ کو؟” ساشہ کھڑکی سے باہر جھانک کر بولی
“کیا مطلب تمہارا؟ گیٹ کو دیکھو باہر کے اور میری گاڑی کو” میں نے گاڑی اور گیٹ پر زور دیتے ہوئے کہا
وہ ایک بار پھر باہر جھانک کر میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔
Please support us by providing your important feedback:
Share this post as much as possible at all platforms and social media such as Facebook, Twitter, Pinterest & Whatsapp. Share with your friends and family members so that we are encourage more and more to bring you much more that you want. Be supportive and share your comments in below comments section. So that we can be aware of your views regarding our website.
Your best Urdu Digest, Novels, Afsanay, Short Stories, Episodic Stories, funny books and your requested novels will be available on your request.