Char Ratain is Latest Novel By Faizan Ahmed. This one is a horror number. Read here Episode 1 and share your views on Episode 1 of Chaar Ratain.
Thank you for reading this post, don't forget to subscribe and find best Urdu Reading Material at Caretofun.
Join Our Whatsapp Channel
Follow Our Facebook page
چار راتیں
Horror Novel
رات کے تقریبا تین بجے کا وقت ہوگا جب میری آنکھ اس احساس سے کھلی کے کوئ میری ایک ٹانگ پکڑ کر زور سےکھینچ رہا ہے میں اس کی گرفت اپنے ٹخنوں کے قریب محسوس کر رہا تھا۔
اس سے پہلے کے اچانک نیند سے اٹھ کر میں اس صورتحال کو مکمل سمجھ پاتا اس نے مجھے اتنا زور سے گھسیٹنا شروع کیا کے میں بیڈ سے پھسلتا ہوا سیدھا زمین پر گرا اور پھر رگڑتا ہو آگے کھنچتا جا رہا تھا۔ میں زور زور سے چلا رہا تھا اور خود کو روکنے کے لئے ہر ممکن چیز کو پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن بے سدھ۔ یہ، سب اتنا اچانک ہوا کے میں خود کو سنبھال ہی نہیں پا رہا تھا اور بیڈ کے کنارے کو پکڑنے کی کوشش میں اپنا ہاتھ بھی زخمی کر بیٹھا۔
مجھے پیر سے پکڑ کر مسلسل کھینچا جا رہا تھا اور میں زیرو بلب کی اس مدھم روشنی اور نیند کی گولیوں کے زیر اثر سمجھنے سے قاصر تھا کے مجھے کھینچنے والا یہ وجود دراصل کیا ہے اور کون ہے
جونہی میں دروازے کے قریب پہنچا وہ خود کھل گیا تھا اور باہر اندھیرا دیکھ کر مجھے اپنی موت سامنے نظر آرہی تھی میں دیوانہ وارہاتھ پیر چلانے کی کوشش کر رہا تھا اور ماربل فلور پر رگڑتے ہو ایک پیر کے بل کھچا چلا جا رہا تھا اس کوشش میں کے کوئی چیز ہاتھ آجائے اور میں خود کو روک سکوں، بیڈ سے دروازے کا فاصلہ کوئی دس فٹ ہوگا اور اس دس فٹ کے سفر میں میں نے ہر ممکن چیز جس کو چھو سکتا تھا پکڑنے کے کوشش کی اور خود کو روکنے کے جتن کرتا رہا۔وہ کیا چیز تھی اور کیسا وجود تھا نہیں دیکھ سکا تھا، البتہ اس کی گرفت اتنی مظبوط تھی کے پیر چھڑوانا مشکل ہی نہیں میرے لئے تقریباً نا ممکن تھا۔
“ساشہ ہ ہ ۔۔ ساشہ ہ ہ میں مسلسل چیخ رہا تھا لیکن وہ ان سب باتوں سے بے خبر مزے سے سو رہی تھی ۔میری آواز اتنی تیز تھی اور خوفناک ہوتی جا رہی تھی کے شاید اگر آس پڑوس کے گھر اتنے بڑے اور لوگ پڑوسیوں سے بے خبر رہنے والے نہ ہوتے تو شاید کئی لوگ سن کے آ جاتے۔
دروازے کے قریب پہنچ کر اپنی پوری جدوجہد سے میں نے خود کو سینے اور دونوں ہاتھوں کے سہارے روکنے میں کامیاب ہو گیا تھا اور اب میری پوزیشن ایسی تھی کے میرا آدھا جسم کمرے کے دروازے سے باہر ، ایک پیر اس انجان وجود کی گرفت میں ، دوسرا میں نے ڈر کے فولڈ کیا ہوا تھا کے یہ بھی اس کے ہاتھ نا آجائے اور خود کو دروازے کی چوکھٹ سے کسی چھوٹے بچے کی مانند چمٹ کر زور سے پکڑا ہوا تھا۔ تب ہی مجھے اپنے پیر پر اس کی گرفت ڈھیلی ہوتی محسوس ہوئی ۔
اپنے پیر کو جھٹکے سے کھینچ کر میں نے جب محسوس کیا کے وہ آزاد ہو چکا ہے تو میں فوراً اپنے پورے وجود کو گھسیٹتے ہوئے کمرے کے اندر گھس گیا اور دروازہ بند کیا۔میرے اتنی زور سے چلانے پر بھی ساشا اور حمنہ بے سدھ پڑے سو رہے تھے،میرا دل حد درجہ کی رفتار سے دھڑک رہا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کے میرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ میں اس خوف کے اثر میں دروازہ بند کرتے ہی اس کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھنے کی کوشش میں دوبارہ زمین پر ڈھے گیا ۔
کمرے میں کھڑکی سے روشنی چھلک کر آرہی تھی اور ساتھ باہر لان میں چڑیوں کی چہچہا ہٹ ، میری آنکھ کھلی تو خود کو بیڈ پر اپنی جگہ بدستور لیٹے ہوئے پایا۔ اپنی عام روٹین کے مطابق میں باتھ روم جانے کی غرض سے بیڈ سے اٹھنا چاہ رہا تھا جب مجھے اپنی کمر پر جلن اور جسم میں کئی جگہ تکلیف کا احساس ہوا۔
میں ایک دم ٹھٹک کے رک گیا اور رات والا منظر میرے سامنے تھا۔ لیکن میں اپنے بیڈ پر واپس کیسےاور کب آیا؟
کمرے میں موجود چیزوں اور بیڈ شیٹ کا جائزہ لیا تو وہ سب بلکل صحیح تھی جس نے مجھے مزید حیرانی میں مبتلہ کر دیا۔
دوڑ کر واش روم گیا اور اپنی شرٹ اتار کر دیکھا تو کمر پر جگہ جگہ معمولی رگڑ کے مگر واضح نشان نظر آرہے تھے۔ میں نے ٹراؤزر کا پائنچا اوپر کر کے پیر کی طرف دیکھا جس پر لال نشان موجود تھے ، سیدھے ہاتھ پر بدستور تکلیف کا احساس ہو رہا تھا۔
ان سب نشانات کے ساتھ میری توجہ دوسری طرف کمرے کی وہی معمول کے مطابق حالت پر گئی جو بدستور ویسی ہی تھی۔
تو کیا یہ ایک خواب تھا؟
اگر خواب تھا تو میرے جسم پر نشان کیسے ہیں؟
میرا دماغ مکمل طور پر ماؤف ہو چکا تھا اور میں یہ سب سمجھنے سے قاصر تھا۔ نجانے کتنی دیر تک میں خود کو شیشے میں دیکھتا رہا اور ان سب چیزوں کے بارے میں سوچتا رہا ۔
“آمشش۔۔ ” ساشہ کی آواز پر میں چونکہ اور اپنے خیالوں سے باہر آیا ۔
“ہاں ساشہ، کیا ہوا؟” میں نے اندر سے ہی پوچھا
” کیا ہو گیا آپ کو اتنی دیر واش روم میں؟ پچھلے بیس منٹ سے ویٹ کر رہی ہوں، اور اس سے پہلے ہی آپ گئے ہوئے ہیں” ساشہ کی آواز آئی جس پر میں چونک گیا اور فٹافٹ اپنی شرٹ پہن کر باہر نکلا۔
ساشہ کو اب تک میں نے ان تمام باتوں سے لا علم رکھا ہوا تھا جو میرے ساتھ پچھلے کچھ دنوں سے پیش آرہی تھیں۔
البتہ گھر میں کچھ غیر معمولی چیزیں سب ہی محسوس کر رہے تھے، جیسے کچن سے برتن کا غائب ہو جانا اور بعد میں واپس اپنی پرانی جگہ سے ملنا ، الماری اور میز پر رکھی چیزوں کا نیچے گر جانا یہ جگہ تبدیل کر لینا۔
یہ سب چیزیں کسی کے نظروں کے سامنے نہیں ہوئی تھیں لیکن جو آج میرے ساتھ ہوا وہ نا قابل یقین اور بیان تھا ۔
——————————————————
یہ خوبصورت اور خوش و خرم گھرانا ہم تین لوگوں پر مشتمل تھا، میں (آمش )میری پیاری بیوی ساشا اور چھ سالہ بیٹی حمنہ۔ اپنی اس فیمیلی کو میں نے ایش یعنی اے ایس ایچ (آمش، ساشہ، حمنہ) کا نام دیا ہوا تھا اور ایش کا لفظ اپنی ذاتی ذندگی میں اکثر استعمال میں لاتا تھا جیسے کے انٹرنیٹ اکاؤنٹس کے پاسورڈز میں، اپنی گفتگو میں بیوی اور بچی کے بیچ ایش فیمیلی اور ایش ہاؤس۔ زندگی کی ہر ممکن آسائش میرے پاس موجود تھی اور یہ زندگی بدستور ایسے ہی خوشیوں سے بھرا ٹوکرا لئے میں اپنی چھوٹی سی فیمیلی کے ساتھ چل رہا تھا۔
میرا گھر شہر سے کچھ دور ایک پر سکون رہائشی علاقے میں تھا جہاں زیادہ تر حکومتی افسران اور گورنمنٹ سے تعلق رکھنے والے افراد مقیم تھے۔
رات ڈھائ بجے کا وقت تھا جب میں ایک دوست کے گھر شادی کی فنکشن سے واپس آرہا تھا کے ایک سنسان سی سڑک پر گاڑی کے سامنے اچانک ایک عورت بچی کا ہاتھ پکڑ کر روڈ کراس کرتی نظر آئ وہ اچانک سڑک کے کنارے موجود درختوں میں سے نکل کر سامنے آئ تھی اور نہایت اطمینان کے ساتھ روڈ کے اس پار جانے لگی لیکن ایسے اچانک اس کے سامنے آجانے سے میں بوکھلا سا گیا اور گاڑی کو فورااپنے الٹے ہاتھ پر گھمایاجس سے وہ بچ سکتے تھے لیکن اگلے ہی لمحے مجھے احساس ہوا کہ گاڑی جس سمت مڑ رہی ہے عنقریب درختوں میں جا ٹکرائے گی یہ کم از کم روڈ سے اتر کر بے قابو ہو سکتی ہے
میں نے اسٹیئرنگ واپس تیزی سے سیدھی طرف گھمایا یہ جانتے ہوئے بھی کے وہ عورت ابھی ادھے روڈ پر ہی موجود ہے۔ میں اپنی بیوی اور بچی کے ساتھ درختوں میں اور روڈ سے نیچے اترنے کا رسک نہیں لے سکتا تھا۔
اگلے ہی لمحے وہ دونوں میری گاڑی کی زد میں تھے اور ٹکرا کر سیدھے ہاتھ پر موجود درختوں میں تقریبا اڑتے ہوئے جا گرے تھے۔ میں گاڑی کی سپیڈ اس تمام صورت حال میں گھٹانے کی جگہ بڑھاتا جا رہا تھا اور ایک لمحے پہلے جو ٹکراؤ میری گاڑی کے ساتھ ہوا وہ رک کر دیکھنے اور مدد کرنے کی ہمت بھی کھو چکا تھا۔ میں اتنا خودغرض کبھی نہ تھا لیکن ایسا کیوں کیا اس کا جواب میں کبھی خود کو نہیں دے پایا۔یہ سب اتنا اچانک ہوا کے اس لڑکی جو ایک جھلک دیکھنے سے مجھے کوئی اٹھائیس انتیس سال کی معلوم ہوتی تھی اور بچی جس کی عمر سات یا آٹھ سال سے زیادہ نہیں ہوگی کو میں بچانے کی کوئی تدبیر نہیں کر پایا، البتہ رک کر انہیں دیکھنا میرے ہاتھ میں تھا لیکن میرے ذہن میں پولیس کیس، اور قریبی بستی کے لوگوں کا ڈر اچانک امڈ آیا اور میں نے گاڑی کی رفتار مزید تیز کر دی۔
کیا ہوا آمش یہ اچانک کیسا جھٹکا لگا تھا؟ ساشا نے ہڑبڑا کر اٹھتے ہوئے پوچھا جو گاڑی کی ٹکر سے جاگ گئی تھی لیکن وہ منظر دیکھ نہیں پائی۔ حمنہ بدستور اس کی گود میں نیم دراز ہو کر لیٹی ہوئی سو رہی تھی۔
اس کے سوال پر میں نے حیرانگی سے اس کی طرف دیکھا جیسے اس سے پوچھ رہا ہوں تم نے نہیں دیکھا کیا ہوا؟
وہ بدستور حیرت سے میری طرف دیکھ رہی تھی اور میری پریشانی بھانپ گئ تھی
آمش! کیا ہوا تھا اچانک کوئ جھٹکا لگا تھا گاڑی کو کچھ ٹکرایا ہے؟ اس کی متلاشی نظریں بیک مرر اور سائڈ مرر سے پیجھے روڈ کا جائزہ لینے کی کوشش کر رہی تھیں، لیکن جو چیز روڈ پر آئی تھی اسے تو میں نے گاڑی کی ٹکر سے دور اڑا کر پھینک دیا تھا۔
اس کے سوال پر میں نے تسلی کر لی کے وہ بے خبر ہے اوربہانہ کر کے اسے ٹال دیا
“کچھ نہیں یار یہاں یہ بستی کے لوگ پتا نہیں کیا کیا ڈال دیتے ہیں روڈ پر اچانک ایک ڈرم ٹائپ کی کوئ چیز آگئ تھی سامنے ،اس سے ٹکرائ ہے گاڑی تھوڑی سی”
میں نے بمشکل الفاظ مجمع کر کے بات بنائ اور حمنہ کی طرف دیکھا جو اب بھی سو رہی تھی۔
سو جاؤ ساشا تم بھی۔ میں نے جھوٹی مسکراہٹ سجا کے خود کو نارمل ظاہر کرنے کی کوشش کی اور ساشا کے بالوں میں انگلی دوڑا کے اسے سونے کا کہا
سڑک پر بدستور سناٹا اور اندھیرا تھا ایسے میں صرف وہ جیزیں نظر آرہی تھیں جن پر میری گاڑی کی لائٹ پڑ رہی تھی۔
مجھے ہر لمحے محسوس ہو رہا تھا کہ اب کوئ اچانک سامنے آجائے گا ، دل بری طرح دھڑک رہا تھا جیسے ابھی نکل کے باہر آجائے گا اور گاڑی چلانا مشکل ہو رہا تھا۔ میں ساشا کے سامنے خود کو پریشان ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا اس لئے بات شروع کی۔
وہ اب تک مجھے ہی دیکھ رہی تھی جیسے میرے جواب سے مطمئن نہ ہوئ ہو۔
یار آج مزا بہت آیا لیکن بہت دیر ہوگئ نہ، میں نے اپنے اوسان بحال کرتے ہوئے بات شروع کی
جی اور میں تو شکر کر رہی ہوں یہ تقریبات ختم ہوئیں آخر روزانہ دیر ہو جاتی ہے اور حمنہ صبح سکول کے لئے اٹھنے میں نخرے کرتی ہے
ساشا کے ساتھ باتوں کا یہ سلسلہ شروع ہوا اور کچھ دیر میں گاڑی ایک کشادہ اور پر رونق علاقے سے گزر رہی تھی اب جہاں اکا دکا دکانیں اب بھی کھلی تھیں اور اس سنسان علاقے کے گزر جانے کا اطمینان بھی تھا۔ کچھ دیر میں ہم گھر پہنچ گئے تھے
وہ منظر میری آنکھوں میں بار بار آرہا تھا اور میں اسے ذہن سے جھٹکنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔ بستر پر لیٹ کر میں تقریباً پوری رات کروٹیں بدلتا رہا لیکن وہ چند لمحے میں بھلا نہیں پایا تھا۔
ساشہ اور حمنہ کب کی سو چکی تھیں اور نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔
اس واقعہ کو گزرے ایک ہفتہ گزر گیا تھا اور یہ بات میں نے کسی سے بھی شیئر نہیں کی تھی یہاں تک کہ ساشہ سے بھی نہیں۔میں نہیں چاہتا تھا وہ اس بات کو جان کر کسی پریشانی میں مبتلہ ہو یہ مجھے وہاں جا کر دیکھنے اور ان لوگوں کی کوئی خبر لینے کا کہے۔
اپنے آنے جانے کے لئے میں نے متبادل راستہ اختیار کرنا شروع کر دیا تھا اور اس راستے کو دن یہ رات کسی وقت بھی اختیار نہیں کر رہا تھا، حالانکہ وہ میرا مستقل راستہ تھا اور دوسرے راستے کے مقابل کافی کم بھی تھا ۔ اس رات کے بعد وہاں سے گزرنے کی میری ہمت نہیں ہوئی ۔
ناشتے کی میز پر مجھے سوچوں میں گم دیکھ کر ساشہ نے استفسار کیا
“کیا بات ہے آپ کن خیالوں میں کھوئے ہوئے ہیں؟” وہ چائے کا گھونٹ پی رہی تھی جب اس کی بات پر متوجہ ہو کر میں نے اس کی جانب دیکھا اور اپنی چائے کا خیال آیا۔
کپ آٹھا کر ایک گھونٹ بھرتے ہوئے میں نے ساشہ کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا ” رات کو پتا نہیں کہاں سے بہت شور کی آوازیں آرہی تھیں” میں ساشہ کی طرف جواب طلب نظروں سے دیکھ رہا تھا
“اچھا؟ کس ٹائم؟ کیسے شور کی آوازیں؟” ساشہ نے مکمل لا علمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
یہ میرے لئے ایک بہت ہی حیران کن بات تھی کے وہ دونوں کیسے میری اتنی زور دار چیخوں سے بے خبر سو سکتے ہیں۔
یہی کوئی شاید رات کے دو یا تین بجے ہونگے، کہیں سے بہت زور سے چلانے کی آوازیں آرہی تھیں۔
“پھر آپ نے دیکھا نہیں کہا ں سے آرہی ہیں اور کس کی آوازیں ہیں” ساشہ نے تجسس سے دریافت کیا جس پر میں جھجک کر رہ گیا۔
کیا واقعی ان لوگوں نے وہ آوازیں نہیں سنی ہیں؟ میں نے خود سو پوچھا
“پتہ نہیں کہاں سے آرہی تھی شاید آس پڑوس سے آرہی ہوں” کہ کر میں چائے میں مصروف ہو گیا۔
موقع ملنے پر میں نے حمنہ سے الگ سے پوچھا لیکن وہ بھی اس بات سے بے خبر تھی ۔
مجھے پورا یقین ہو گیا کے انہیں اس بات کا علم نہیں ہے۔ پھر یہ نشان کیسے آگئے اگر وہ میرا خواب تھا۔۔
دوپہر میں ایک بار پھر میں نے شرٹ اتار کر اپنی کمر پر وہ نشان چیک کئے، ساتھ ہی ہاتھ میں تکلیف جاری تھی جو بیڈ پکڑنے کی کوشش میں رگڑ لگنے سے ہو رہی تھی اور البتہ پیر پر موجود وہ نشان قدرے ہلکا ہو گیا تھا قریباً مٹ جانے کے جس پر مجھے حیرانگی تھی۔
میں تکلیف اور پریشانی میں دوسری کئی راتیں ٹھیک سے نہیں سو سکا اور راتوں کو اٹھ اٹھ کر ڈر کے مارے بیٹھ جایا کرتا تھا۔ بیوی بچی کے چہرے پر وہی اطمینان تھا اور وہ میری اندرونی پریشانی سے بے خبر مزے سے تھے۔ اس واقعے کے بعد میں نے کبھی ساشہ اور حمنہ سے کسی چیز کے گم ہونے یہ جگہ بدلنے کی شکایت نہیں سنی ۔۔
رات کے قریباً ساڑھے تین بجے کا وقت تھا جب میری آنکھ سامنے موجود کھڑکی پر پڑی۔ چاند کی روشنی کمرے میں داخل ہو رہی تھی اور پردے دونوں جانب کھلے ہوئے تھے ، عین کھڑکی کے اوپر والے حصے پر ایک ہاتھ جو دیکھنے میں کسی چھوٹی بچی کا لگتا تھا لٹک کر ایسے ہل رہا تھا جیسے چلتے ہوئے ہاتھوں میں خود ایک حرکت پیدا ہوتی ہے اور وہ آگے اور پیچھے ہوتا ہے۔
Please support us by providing your important feedback:
Share this post as much as possible at all platforms and social media such as Facebook, Twitter, Pinterest & Whatsapp. Share with your friends and family members so that we are encourage more and more to bring you much more that you want. Be supportive and share your comments in below comments section. So that we can be aware of your views regarding our website.
Your best Urdu Digest, Novels, Afsanay, Short Stories, Episodic Stories, funny books and your requested novels will be available on your request.