وہ وادیء کشمیر تھی اور صرف اسلام کی ہی جاگیر تھی!
کشمیر اصل میں لفظ کش کاش کا مخفف ہے۔ اسے کاشمیر بھی کہتے ہیں۔کاش کا مطلب ہے چمکنا،برف یا جھیل کے پانی کا چمکنا۔اور میر سمندر کو کہتے ہیں۔
کشمیر کو کشیپ میر کا مخفف بھی سمجھاجاتاہے۔کشیپ ایک رشی تھا جس کی نسبت کہاجاتاہے کہ اس نے معجزے سے پہاڑکوپھاڑکرجھیل کاپانی نکالاتھا۔
اسلامی اصطلاح میں اسے کشمیر اس لیے کہتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالٰی نے اس جگہ کو مجاہدین کے لیے چُن لیاہے۔اس زمین کا چیر(آزمائش میں ڈال)کراس میں سے نوازے ہوؤں کومنتخب کرلیاہے۔
کہتے ہیں کہ کشمیر گرمیوں کی جنت ہے۔ اورجنت توہمیشہ جنت ہی ہوتی ہے۔اور کشمیر بلاشبہ جنت کی ایک تصویرہے۔
اور جنت کیا ہوتی ہے؟
حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتے ہیں کہ جنت وہ ہوتی ہے جس کے لیے کوشش کی جائے، ایسی منزل جس کو کھونے کے بعد اس کی تلاش ہو۔ جنت گُم رہتی ہے، اور اس کے ملنے کی آرزو ہوتی ہے۔
جنت پہلے بغیر جدوجہد کے ملی تھی،کشمیر بھی پہلے بِن کوشش کے ہی ملا تھا۔پھر جنت سے نکال دیاگیاتھا اور کشمیر بھی چھِن گیاتھا۔ کہانی اس کی بھی بہت طویل ہے؛ گندم کے دانے کی طرح۔۔۔۔خیر۔۔۔!!!
اللہ پاک نے کشمیر کی وادی کو مجاہدین و غازیان و شہداء کے لیے منتخب کر لیاتھا۔۔۔
کیونکہ بھلا کبھی محض خام خیالی سے بھی جنت ملی ہے؟تو پھر کشمیر بھی بھلا بغیر لال ہوئے رنگین ہوسکتاہے۔۔۔؟؟
جنت کے لیے تو چین و قرار ختم کرنا پڑتا ہے۔راتوں کوقیام کرنا پڑتاہے۔دن کو روزہ رکھنا پڑتا ہے۔دوسروں کادرد اپنے سینے میں لینا پڑتاہے۔ تو کیا کشمیر صرف قراردادوں سے ہی مل جاتا۔۔۔؟؟؟
اسی لیے شہداء، غازیان و مجاہدین کے لہو ہمہ وقت گرم رہتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اپنی منزل پر پہنچنے کی آرزو و جدوجہد ہوتی ہے۔
اس لیے کہ
کہیں گردِ راہ میں بھی نہ ملا سراغ ان کا
جنھیں منزلوں سے پہلے سرِراہ نیندآئی
اور وہ جنت جس کے لیے برہا ن و انیؒ و سبزاربھٹؒ جیسوں کوچُن لیاگیاتھا،اس کی تصویر کچھ اس طرح تھی۔۔۔۔
خوب صورت بلندوبالاپہاڑ،ان پہاڑون سے پھوٹتے ٹھنڈے ومیٹھے پانی کے چشمے،شبنم کے موتیوں سے مزین سبزہ زار،رنگ برنگے پھولوں سے سجے اور ان کی پُرمعطر مہک سے مہکتے گلشن،خوشبوؤں سے معطر فضا،خوب صورت و چہکتے پرندوں کی میٹھی اور ُسریلی چہچہاہٹ،آسمان سے برستی ٹھنڈی بوندیں،زمین کا خوش نظرخاکی رنگ، دامنِ کوہ میں جھوم جھوم کر بہتی ندیاں،ان ندیوں کے آبِ حیات سے زندگی پاتی سرسبزو شاداب فصلیں،ان فصلوں کولیتے اور ان دلکش مناظر میں بستے حسین و جمیل،بہادر و غیور کشمیری۔۔۔۔!!
وہ صرف ایک وادی نہیں تھی۔وہ قدرت کی حسینائی اور دلکشی کاایک خوب صورت شاہکار تھی۔
وہ جنت تھی۔ہاں، بلاشبہ وہ جنت ہی تھی۔لوگ تو اسے صرف ”جنت نظیر“ کہتے تھے۔ حالانکہ وہ توجنت ہی تھی۔
وہ جنت کی ایک تصویر تھی۔!
وہ وادیء کشمیر تھی۔۔!
اور پھر یوں ہواکہ۔۔۔۔۔
دشمنِ امن و حُسن نے کایا ہی پلٹ کررکھ دی۔ندیوں اور چشموں کے بے رنگ ٹھنڈے مائع کی جگہ گرم سرخ سیال مائع نے لے لی۔پرندوں کی سُریلی چہچہاہٹ کی جگہ بندوق سے نکلتی خوف ناک گولی نے لے لی۔سرسبز و شاداب مناظر کو سیاہ دھوئیں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔پھولوں کی عِطر بارودوں کی زہریلی بدبو میں دب کر رہ گئی۔آسمان پر سفید و سرمئی بادلوں کی جگہ اب آگ اور سرخی نے لے لی تھی۔ زمین کے خوش نظرخاکی رنگ پر لال لہوقابض آگیاتھا۔اور اس میں نہ تو ان حسین و جمیل کشمیری ماؤں بہنوں،بیٹیوں اور بیویوں کی عزتیں محفوظ رہیں اور نہ ہی بہادر و غیور کشمیری جوان شہزادوں،معصوم بچوں، اور معزز و بزرگ بوڑھوں کی زندگیاں۔۔۔۔۔
ہرجانب صفِ ماتم بچھ گئی۔جوانوں کے ہاتھوں میں علم کی کتابوں کی جگہ ڈنڈے آگئے،بچوں کے ہاتھوں میں موجود نازک کھلونے مضبوط پتھروں میں بدل گئے۔ماؤں،بہنوں کے ہاتھوں میں اپنے جوانوں اور محافظوں کے نئے لباس خون آلود ہوگئے۔لمحہ،لمحہ سال بلکہ صدوں پر محیط ہوگیاتھا۔ انسانیت تو بہت لمبا عرصہ ہوا مرچکی تھی۔۔۔۔!!!
اور کشمیر کی وہ وادی جو کبھی جنت نظیر اور کبھی کی تصویر ہواکرتی تھی،اپنے حسین و جمیل مناظر کے ان خوف ناک و کرب ناک تغیر پر دہائی دے رہی تھی کہ۔۔۔۔
درد کی تصویر ہوں
غمزدہ دلگیر ہوں
میں تیرا کشمیر ہوں
کشمیری بہنوں کی فغاں
اے مجاہد نوجواں!
دے صدا توہے کہاں
غصب ہیں آزادیاں
جل رہی ہیں وادیاں
حُسن کی شہزادیاں
کٹ گئی ہیں بیٹیاں
مائیں اب نہیں سوتیاں
رہتی ہیں اب روتیاں
روشنی کے قاصدو!
میرے غازی مجاہدو!
چھینے آنچل تو دلادو
تُو شیر ہے،نہیں فاختہ
روک جبر کا راستہ
ہے خدا کا واسطہ
گھر پہ قابض غیر ہو
ہندو بنیا شیر ہو
میرے اللہ! خیر ہو
دخترِ کشمیر ہوں
میں تیری ہمشیر ہوں
آج بے توقیر ہوں
دکھ یہ نہیں سہہ پارہے
آنسو بہتے ہیں جارہے
بہنا!ہم ہیں آرہے
اے میری کشمیری ماں!
آگئے ہیں ہم وہاں
دی صدا تُونے جہاں
ہاں،البتہ صرف ایک پرچم اب بھی ایسا تھا جو اُمید کا دیا تھا اور۔۔۔۔
آزادی و خودمختاری کا پروانہ بھی تھا۔ جذبہ بھی تھا اور ولولہ بھی۔جنون بھی تھا اور عشق بھی۔ایمان بھی تھا اور عقیدہ بھی۔ہتھیار بھی تھا اور دفاع بھی۔ زندگی بھی تھا اور موت بھی۔ لباس بھی ھا اور کفن بھی۔۔۔
وہ سبز ہلالی پرچم تھا۔
ہاں وہ”میرے پاکستان“کا پرچم تھا۔ وہ فضا مین گونجتی ”اللہ اکبر“ کی پُرنور صدا اور۔۔۔
ہم لے کے رہیں گے آزادی،۔۔۔کشمیر بنے گا پاکستان۔۔۔ جیسے فلک شگاف نعروں کا مؤجب تھی۔
وہ اسلام کی دوسری عظیم ریاست کا پرچم تھا۔۔!
اور۔۔۔ ظلمت کی تاریکی تھی کہ مٹنے کانام ہی نہیں لے رہی تھی،بلکہ اور زیادہ بڑھتی ہی جارہی تھی۔اور ربِ محمد مصطفٰی ﷺ،پروردگارِ احمدِ مجتبٰی ﷺ اس ظلمت کو خود ہی بڑھنے د ے رہاتھاکیونکہ جب ایک فرعون کی فرعونیت کا عروج تھا تبھی حضرت موسٰی ؑ،کلیم اللہ نے اس کا قلعہ قمع کیا تھا۔جب سرزمینِ عرب میں خوف ناک تاریکی آنکھوں کونگلنے لگی تھی تبھی وہاں اُمی ہاشمی و مکی،مدنی و عربی تاجدارِ دوجہاں ﷺ کا جاوداں نورچمکا۔
اور اللہ پاک اپنے نور کو پوراکرکے رہے گا،گوکہ اس سے کافر ناخوش ہی ہوں۔۔۔۔!
اور اللہ پاک اپنے نور کو پوراکرکے رہے گا،گوکہ اس سے کافر ناخوش ہی ہوں۔۔۔۔!
اور اللہ پاک اپنے نور کو پوراکرکے رہے گا،گوکہ اس سے کافر ناخوش ہی ہوں۔۔۔۔!
اور پھر ایک دن سورج بڑی شان اور پوری آب و تاب سے طلوع ہوا۔سورج کی آمد سے قبل ہی تمام آتش کدوں کی آگ سرد ہوچکی تھی۔ ہِند کے سونے و جواہرات سے سجے سارے پتھر کے ہاتھی و بندر اور خواتین و حضرات راکھ ہوگئے تھے۔آج سیاہ دھواں سارے ہِند کو اپنی لپیٹ میں لے چکاتھا۔ غزنوی و غوری سمیت سبھی تلواریں ہر مرحب سے سر سے لے کرپاؤں تک اسے دوحصوں میں برابر برابر تقسیم کررہی تھیں۔
اور وہ اپنے بندروں اور ہاتھیوں کو پکارتے تھے مگر وہ تو صبح صادق سے قبل ہی راکھ کاڈھیر ہوچکے تھے۔۔۔!!
تو اب بھلا وہ کس کو بلا سکتے تھے۔۔۔؟؟
اور ہرسمت ایک ہی فلک شگاف نعرہ گونج رہاتھا۔۔۔
اللہ اکبر۔۔۔ اللہ اکبر۔۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔۔!!
قیامت سے قبل ایک فیصلہ ہوناتھا،جو حضرت ابوہریرہ ؓ نے روایت کیاتھا۔۔۔
ہاں۔۔۔غزوہء ہند ہورہاتھا۔۔۔
اور غزوہ اس جنگ کو کہتے ہیں جس میں حضورنبی کریم ﷺ بذاتِ خود شریک ہوں۔۔۔
نبی اکرم ﷺ کی آرزو مبارک شہادت کی تھی۔۔۔
جب پاک پیغمبرﷺ کی یہ مبارک خواہش ہوگی تو بھلا امتی یہ خواہش کیونکر نہ کریں گے۔۔۔؟؟
پس آج ہر امتی شہادت کی آرزو لیے،سر پرکفن باندھے، اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے ہوئے میدان میں آیاہواتھا۔۔۔!
میں ابھی ابھی کافروں کے دلوں میں رعب دالے دیتا ہوں۔(سورۃ الانفال)
ہِند کے تمام صنم کدے راکھ ہوچکے تھے،اہلِ کفار کے حوصلے ٹوٹ چکے تھے۔۔۔
تو ان کے سر مار (کر) اڑادو اور ان کا پورپور مار(کرتوڑ) دو۔ (سورۃ الانفال)
آج ہر مسلمان مجاہد کافروں کا سر قلم کررہاتھا،اور فرشتے ان کے ساتھ بخوبی اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔۔۔
آج ہَند کا دی اینڈ تھا۔۔۔!!!
اس عظیم اینڈنگ میں سب لوگ اللہ تعالٰی کے منتخب کردہ تھے۔کیونکہ وہ جس کو چاہتا ہے چُن لیتا ہے۔آج وہاں سب معزز تھے۔غدارِدین و ملت کو چھانٹ کر الگ کر دیاگیاتھا۔
نوجوان شہادت کی چاہ میں کفار پر لپک لپک کر حملے کررہے تھے۔معاذ ؓاور معوذؓ کی طرح بچہ بچہ ہرابوجہل کا سرقلم کر کے اپنے جلیل القدر،پاک پیغمبر ﷺ کے قدموں میں پیش کرنے کے لیے بے قرار تھا۔
پاک امام حسینؓ کا شجاعت کا سبق حفظ کیے نوجوان و بچے اور بڑے و بوڑھے شہادت کا جام آگے بڑھ بڑھ کر نوش کررہے تھے۔شہداء اپنا آخری سانس مسکراتے ہوئے لے رہے تھے۔زمین سے آسمان تک ان کے لیے خوش نما پھولوں کے قالین بچھے تھے جن پر قدم بہ قدم چل کر ان کو اپنے پاک پروردگارِعظیم و وحدہٗ لاشریک اللہ تبارک و تعالٰی کے حضور سجدہ ریز ہوناتھا۔اس کے پاک انتخاب پر سجدہء شکر بجالاناتھا اور اپنے پاک پیغمبرحضرت محمدِمصطفی،احمدِمجتبٰی ﷺ کی خدمتِ اقدس میں دروردوسلام کے کروڑوں نذرانے پیش کرنے تھے۔
غازیانِ دین اللہ اکبر ک نعروں سے کفار کے لہو سے وادی کو رنگین کررہے تھے۔۔۔
شہداء کا لہو ویسے ہی گرم رہا جیسے رگوں میں تھا،کیونکہ وہ شہیدوں کا لہو تھاتو بھلا کیونکر ٹھنڈا ہوتا۔۔۔۔؟؟
اور فتح کاشوراُٹھا اور سبزہلالی پرچم بلند ہوا۔
اِنس و ملائک، چرندپرند،حیوانات و جمادات و نباتات،پہاڑوگلزار سبھی نے یکجا ہوکر نعرہ لگایا اللہ اکبر ۔۔۔!!!
اور۔۔۔
کشمیر بنا ہے پاکستان۔۔۔
آج ہَندوستان کا نام و نشاں صفحہء ہستی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مِٹ چکاتھا اور اس بات کا گواہ مٹی کا ذرہ ذرہ اور اور ہوا کا جھونکا جھونکا تھا۔پانی کا قطرہ قطرہ،درخت کا پتاپتا جھوم جھوم کر یہ گواہی دے رہاتھاکہ۔۔۔
حق آیا اور باطل مِٹ گیا۔۔۔
کشمیر بنا ہے پاکستان۔۔۔
ہاں، کشمیر بن چکا ہے پاکستان۔۔۔
اس عظیم نعمت و احسان پر مسلمانوں کا پورپور اپنے ربِ ذوالجلال کا شکرگزار تھا۔
کیونکہ اس وادی کو ربِ محمدﷺ نے خود چُناتھا،میدان بنانے کے لیے۔۔۔
شہداء کی سرزمین بنانے کے لیے۔۔۔
اور کُفر کاقلعہ قمع کرنے کے لیے۔۔۔
بے شک وہ عظیم ارض وادیء کشمیر تھی۔۔۔!
اور صرف اور صرف اسلام کی ہی جاگیر تھی۔۔۔!
آج حضرت برہان وانی شہیدؒ اپنے تمام ساتھیوں سمیت یہ کہہ رہے تھے،جو وہ سات سال تک کہتے رہے۔۔۔
یہ وادیء کشمیر ہے
یہ جنت نظیر ہے
یہ وادی میری تقدیر ہے
کیونکہ یہ میری جاگیر ہے
یہ میرے خوابوں کی تعبیر ہے
اسی سے ہی تو زندہ میرا ضمیر ہے
یہ میرے دل کی سرحدی لکیر ہے
کیونکہ یہ میرے وطن کی امیر ہے
اے ہند! تیرے لیے یہ حقیر ہے
مگر میرے لیے یہ قُرآن کی تفسیر ہے
مانا کہ یہ تیرے ظلم کی اسیر ہے
مگر سن لے،یہ میری توقیر ہے
اب یاد رکھ،اے دشمنِ اسلام!
یہ اسلام کی جاگیر ہے
یہ میرا کشمیر ہے
اور بس میری ہی جاگیر ہے
کیونکہ یہ صرف میرے اسلام کی ہی جاگیر ہے
اللہ اکبر۔۔۔ اللہ اکبر۔۔۔۔ اللہ اکبر۔۔۔
Previous Pages:
Next Pages:
2 thoughts on “Jageer E Islam by Qurat Ul Ain Laghari”
انشاءاللہ کشمیر کی آزادی دور نہیں
ایک بہت خوبصورت تحریر۔۔دل کو چھو لینے والا انداز۔۔۔لہو کو گرما دینے والا جوش۔۔۔