Gharonda By Sami Faraz Urdu Afsana
Gharonda By Sami Faraz
گھروندہ
ساحلِ سمندر کھڑے آکاش کو اچانک گرتا دیکھ کر پاس کھڑے لوگ اس کی طرف بھاگے…
“ارے کیا ہوا اسے”انہی میں سے ایک شخص کے منہ سے بے اختیار نکلا…
شاید بیہوش ہو گیا ہے”دوسرے نے اندازہ لگانے کی کوشش کی…
“کوئی جلدی سے ایمبولینس بلواؤ…..”اتنے میں پہلا شخص تقریباً چیختے ہوئے بولا…..
Thank you for reading this post, don't forget to subscribe and find best Urdu Reading Material at Caretofun.
Join Our Whatsapp Channel
Follow Our Facebook page
ایک شخص ایمبولینس کا انتظام کرنے لگا…..
اور وہ لوگ اس نوجوان کو خود سے ہی چیک کر کر کے اندازے لگانے لگے…..
اگلے چند لمحوں میں ایمبولینس اپنی مخصوص آواز کے ساتھ ساحلِ سمندر کے پاس تھی……
انہوں نے تیزی سے اس نوجوان کو اسٹریچر پر ڈالا اور ہسپتال کو ہو لیے……
ڈاکٹر نے اسے چیک کرنے کے بعد اس کے گھر والوں کو فون کیا
“میں ڈاکٹر اسلم بات کر رہا ہوں……آپ سے آکاش کے سلسلے میں بات کرنی ہے”نارمل لہجہ رکھتے ہوئے ڈاکٹر بولا
“کیا ہوا میرے بیٹے کو؟؟؟”صفدر صاحب ہڑبڑا کر بولے…..
“آپ ہسپتال پہنچئے…..پھر یہیں بات کرتے ہیں”
“آپ بتائیے تو ڈاکٹر صاحب خیریت تو ہے ناں؟؟؟”انداز مستفسرانہ تھا…..
“جی!خیریت ہے…بس تھوڑے ذہنی دباؤ کی وجہ سے غشی طاری ہو گئی تھی…مگر گھبرانے کی بات نہیں وہ بالکل ٹھیک ہیں ابھی……..”
“یا خدا تیرا شکر ہے!”صفدر صاحب کے چہرے پہ طمانیت کے آثار آچکے تھے…..
وہ خدا کاشکر ادا کر رہے تھے…..آخر آکاش ان کا اکلوتا بیٹا تھا…..اسے کچھ ہو جاتا…..اور وہ انہیں اس طرح چھوڑ دیتا تو…….وہ تو جیتے جی مر جاتے…..اور ایک ہفتے پہلے ہی تو اس کا نکاح بھی ہوا تھا…..ڈاکٹر نے انہیں ہسپتال کا ایڈریس بتا کر فون بند کر دیا……
آج پھر رات ڈھلے علینہ نے آئس کریم کھانے کی ضد کر دی تھی……اور وہ اسکے حکم کو کیسے ٹال سکتا تھا!
بس خوشی میں سر ہلاتا اسے ساتھ لیکر چل پڑا……علینہ اپنی ضد پوری کروا لینے پہ خوش تھی……
وہ آئس پارلر سے واپسی پر سمندر کی طرف ہو لیے…کیونکہ علینہ کو رات کے وقت ساحلِ سمندر پہ ننگے پاؤں چلنا بہت اچھا لگتا تھا……اور یہ جگہ ہمیشہ سے ہی اسے اچھی لگتی تھی کہ…یہاں اسے سکون ملتا تھا……
مگر آج شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا…..وہ اپنی مستی میں مست ریت کا گھروندہ بنا رہی تھی…اور اس کے چہرے پہ عجیب سا سکون اور طمانیت تھی……
“میرے گھر والوں نے میری شادی کی تاریخ طے کردی ہے!!”
تبھی آکاش نے اسے یہ بھیانک سی خبر سنائی…
علینہ کو اس کی آواز کسی ہتھوڑے کی طرح لگی….
اسکی تو سانسیں ہی رُک گئی تھیں…
اسکا وجود جیسے بے جان ہو گیا…
اور ساتھ ہی اس کا وہ گھروندہ بھی ٹوٹ گیا جو مکمل ہونے ہی والا تھا…..
اسے ایسے لگا جیسے وہ ریت کا گھر نہیں….. بلکہ اسکا اپنا گھر ٹوٹ گیا ہو…..
اور اچانک ہی وہ رو دینے والی آواز میں بولی…..
“تم ایسا کیسے کر سکتے ہو؟؟؟”
اس کی آواز نے خاموشی کے کانچ کو چکنا چور کر دیا…… اور اس کی آواز سنّاٹے میں ایسے محسوس ہوئی تھی…… جیسے کھائی میں کوئی بڑااا پتھر گرا ہو…..
“میں خود بھی تمہیں نہیں چھوڑنا چاہتا”اس نے روہانسے ہوتے ہوئے کہا…..
“تم مجھے کیسے چھوڑ سکتے ہو”وہ رو دینے کو تھی…..
“میں کیا کر سکتا ہوں؟؟؟میں خود اس زیادتی کا شکار ہوں”اس کی حالت بھی کچھ اچھی نہیں لگ رہی تھی…..
“اچھا تو تم کچھ نہیں کر سکتے تو اسکا مطلب تم نے مجھے چھوڑ دیا!!!”اس کے لہجے میں مصنوعی سختی تھی…..
“ایسا نہیں ہے علینہ! میں تمہیں نہیں چھوڑ سکتا!”اس نے صفائی دینا چاہی…..
“یہ تم کیا بات کر رہے ہو؟؟؟ایک تو تم مجھے چھوڑ کر کسی اور سے شادی کر رہے ہو….. پھر بھی کہہ رہے ہو کہ تم نے مجھے چھوڑا نہیں…..”
‘کسی کا محبوب اسے چھوڑ کر کسی اور کو اپنا لے تو یہ محبّت کی توہین ہوتی ہے’
اور علینہ سے اپنی محبت کی توہین برداشت نہیں ہو رہی تھی…..
“بس اب مجھے گھر تک چھوڑ دو مجھے تنہا رہنے دو……”علینہ نے دوٹوک انداز میں کہا اور پارکنگ کی طرف چل پڑی……
اس کے قدم گویا پتھر کی طرح ہو گئے تھے…..مگر وہ اپنی خودداری کا بھرم رکھتے ہوئے چلتی رہی…..
اچانک پلٹ کر تقریباً بد دعا دیتے ہوئے گویا ہوئی…..”مگر ایک بات یاد رکھنا! بہت بڑا نقصان اٹھاؤ گے…..”اسکے ساتھ ہی اس کے آنسؤوں کا بند ٹوٹ گیا…..
آکاش سوچ رہا تھا کہ “محبت نہ ملنے کے بعد بھی کسی نقصان کی گنجائش رہتی ہے!!!”
⭐⭐⭐
“میں اسے نہیں چھوڑ سکتا…..آخر آپ لوگ مانتے کیوں نہیں؟؟؟”آکاش آپے سے باہر ہو چکا تھا…..
“یہ کیا طریقہ ہے اپنے والدین سے بات کرنے کا؟؟؟”اسکی امی نے اسے ڈانٹا…..جبکہ صفدر صاحب خاموش بیٹھے انکی باتیں سن رہے تھے…..
“سوری!!!مگر امی آپ لوگ مان جائیں نا…..علینہ بہت اچھی لڑکی ہے…..”اس نے معذرت کرنے کے ساتھ ایک مرتبہ پھر اپنی بات منوانے کی کوشش کی…..
“بس بیٹا ہم ایک بار تمہیں بتا چکے ہیں کہ ایسا نہیں ہو سکتا…..”انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا…..
“مگر کیوں امی؟؟؟”یہ کہنے کے بعد وہ فرحانہ بیگم کو جواب طلب نگاہوں سے دیکھنے لگا…..
“کیونکہ ہمارے ہاں خاندان سے باہر رشتہ نہیں جوڑتے… آکاش”
“اور اب آئندہ اس موضوع پہ کوئی بات نہیں ہو گی…..اور ویسے بھی دو دن بعد تمہارا نکاح ہے…..”فرحانہ بیگم نے بات ختم کر دی اور اپنے کمرے کی طرف چل پڑیں…..
“مگر امی…..”آکاش نے ایک آخری امید کے ساتھ اپنی امی کو پکارا مگر انہوں نے ان سنی کر دی اور چلی گئیں…..
اور آکاش بےجان سا وہیں بیٹھا رہ گیا…..
وہ سوچ رہا تھا…”کیا مائیں ایسی بھی ہوتی ہیں…جو ایک جاہلانہ رواج کو ختم کر کے بیٹے کو خوشیاں نہیں دے سکتیں…..”
آکاش اداس بیٹھا تھا…..اس کا جی چاہ رہا تھا کہ کوئی معجزہ ہو اور اسکی شادی فریدہ کے بجائے علینہ سے ہو جائے…..
مگر اب وہ کیا کر سکتا تھا؟؟؟وہ علینہ کو بھگا کر بھی شادی نہیں کر سکتا تھا اور علینہ بھی نہ مانتی……کہ اس طرح محبت کا تقدّس پامال ہو جاتا…..
“کیونکہ محبّت کا مقصد عزت پامال کرنا نہیں ہوتا……”
“ارے بیٹا!!!تم ابھی تک تیار نہیں ہوئے!……بارات کا وقت ہو رہا ہے…..ہم جلدی جائیں گے تو وقت پہ لوٹیں گے نا!”آکاش کی امی نے اسے اس حالت میں دیکھ کر اسے فوراً سے پہلے تیار ہونے کو کہا اور چلی گئیں…..
وہ مرے مرے انداز میں تیار ہوا اور بارات کے ساتھ شادی ہال پہنچ گیا …..مگر اس کی طبیعت میں ہنوز بےچینی نمایاں تھی…..
نکاح تو ہو گیا اور اس کے بعد وہ اسی طرح گھر آگیا مگر اسکا ذہن علینہ کی جانب ہی لگا ہوا تھا…..
“نجانے علینہ کے دل پہ کیا گزر رہی ہوگی؟؟؟”اور اس آخری ملاقات کے بعد تو علینہ کے اس سے ملنے کی بات دور اس نے تو آکاش سے بات تک نہ کی تھی…..
“اسے کچھ ہو گیا تو…..؟؟؟”
یہ خیال آتے ہی اس کی بےچینی میں اضافہ ہو گیا…..مگر وہ سمجھوتے کے علاوہ کیا کر سکتے تھے…..
علینہ کو جب سے یہ خبر ملی تھی وہ بے چین سی رہنے لگی تھی…..لیکن آج وہ پہلے سے بہتر لگ رہی تھی…..اور ایسے لگ رہا تھا کہ اب وہ بھی حالات سے مکمّل سمجھوتا کرنے کو تیار ہے…..
انہی دنوں میں ایک بار تو اس نے خود کشی کا ارادہ کر لیا تھا مگر اچانک ہی اسے یہ خیال آیا…..”جب اس سے محبّت کرنے والا کسی اور کو اپنانے پہ راضی ہے…..تو وہ کیوں اپنی اور اپنے والدین کی عزت خراب کرے……”
پھر اچانک اسے یہ خیال آیا کہ…..جب وہ اس دنیا میں ہی نہیں رہی گی…..تو اسے کیا فرق پڑے گا؟؟؟
مگر اگلے ہی لمحے اسے اپنا یہ خیال خود احمقانہ لگا…..
کہ لوگ تو مرنے کے بعد بھی نہیں چھوڑنے والے…..وہ تو اس کی روح کو بھی تکلیف پہنچائیں گے…..اور اس کے گھر والوں کو ویسے ذلت کی دلدل میں لحظہ لحظہ مارتے رہیں گے…..
اس کے بعد اس نے یہ پختہ عزم کر لیا کہ اب وہ محبّت کے نام پہ عزتیں داؤ پہ نہیں لگائے گی…..
بلکہ وہ ایک اچھی زندگی گزار کے دکھائے گی…..
اسے اس ناپائیدار اور فنا ہونے والی محبّت سے نفرت ہونے لگی تھی…..
اس نے اس دوران آنکھوں سے بے اختیار نکل آنے والے آنسؤوں کو صاف کیا…..اور ناشتہ تیار کرنے چلی گئی…..
آج علینہ بہت خوش تھی…..کیونکہ آج اس کا نکاح تھا…..اور اس نے پچھلی تمام یادوں کو آکاش کی جدائی کے ساتھ ہی دفنا دیا تھا…..
مولوی صاحب آ چکے تھے…..
اور آج تو فاخر کی خوشی کا…کوئی ٹھکانہ نہیں تھا…..کیونکہ آج اس نے اپنی وہ چاہت مل گئی تھی جسے پانے کیلئے اس نے سب سے بہترین اور اچھا راستہ اپنایا تھا…..جس میں وہ دونوں باعزت طور پہ ایک ہو گئے تھے…..اور وہ واحد رستہ نکاح کا تھا…..
فاخر علینہ کا کزن تھا…..اور پچھلے دو ہفتوں سے اسکا پرپوزل علینہ کیلئے آیا رکھا تھا مگر…وہ ہر بار ٹال دیتی تھی…
لیکن جب اس نے یہ سوچا تھا کہ “زندگی کسی ایک شخص کیلئے وقف تو ہوتی ہے مگر وہ شخص شوہر ہی ہوتا ہے” تب اسے آکاش سے ملاقاتیں کرنے پر شرمندگی بھی ہوئی تھی کہ اس نے کسی اجنبی کے دعووں پہ خود کو اس کیلئے بےمول کر دیا تھا…..مگر اس کے ساتھ ہی اس نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ آج وہ فاخر کے رشتے کیلئے ہاں کر دے گی…..کیونکہ اس نے اسے گھر سے باہر چھپ چھپ کر ملنے کو تو کجا کبھی بات کرنے کو بھی نہیں کہا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ صنفِ نازک کی عزت اس سے بھی زیادہ نازک ہوتی ہے…..
علینہ کو فاخر کی یہی بات اچھی لگی تھی اور اس نے اس کیلئے ہاں کر دی تھی…..علینہ کا نکاح آکاش کے نکاح کے ٹھیک تین دن بعد ہوا تھا…..
سب لوگ ہال میں آ چکے تھے…..
“تو نکاح شروع کریں مولوی صاحب!”فاخر کے والد صاحب نے مولوی صاحب کو مسکراتے ہوئے کہا…..
مولوی صاحب نے نکاح شروع کیا…..دونوں طرف سے…..
“قبول ہے”…”قبول ہے”…..سنتے ہی سب کے چہروں پہ خوشی کی لہر دوڑ گئی…اور علینہ کے چہرے پہ تو بے تحاشہ اطمینان در آیا تھا…..شاید وہ نکاح کے بعد خود کو پہلے سے زیادہ محفوظ سمجھ رہی تھی…
وہ بہت خوش تھی اور اس سے زیادہ پر سکون…..
“آکاش!
“آج مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ ہم کسی رشتے میں جڑنے سے پہلے…..ملتے کیوں رہے…..
مگر شکر بھی ادا کر رہی ہوں خدا کا کہ…اس نے ہمیں کوئی غلط قدم اٹھانے بچا لیا…..اور ہم دونوں کی لاج رکھ لی…
تمہیں یاد یے؟؟؟جب ہم آخری بار سمندر کے کنارے ملے تھے!!!
تو تم نے جب مجھے اپنے نکاح کا بتایا تھا تو میرا وہ گھروندا جو مکمل ہونے والا تھا…..اور تمہاری اس شادی والی بات پہ ٹوٹ گیا تھا…..اس وقت مجھے لگا تھا کہ میرا اپنا گھر بننے سے پہلے ٹوٹ گیا ہے…..
مگر…آج مجھے سمجھ آئی ہے کہ وہ ہمارا گھر تھا ہی نہیں بلکہ وہ تو ہماری ادھوری محبت تھی…..جس کا ختم ہونا ہی اچھا ہوا ورنہ ہم دونوں کے حصے میں ذلّت کے سِوا کچھ نہ آتا…..
میں وہ سب یادیں بُھلا رہی ہوں…..
تم بھی مجھے اپنی یادداشت سے نکال دو اور….. فرحانہ کے ساتھ اپنی زندگی کو اچھے سے بِتانے کی کوشش کرو…..
اور یہ بھی کہ گھر شوہر کی محبت سے ہی کامل ہوتا ہے…کسی اجنبی کی محبت سے نہیں…..”
~علینہ فاخر
علینہ کی شادی آکاش کی شادی کے تین دن بعد ہوئی تھی…..اور آج یعنی شادی سے فارغ ہونے کے بعد…..چوتھے دن اس نے آکاش کو یہ خط لکھا تھا…..اور جب آکاش نے وہ خط پڑھا تو اسے لگاکہ وہ خود اپنی ہی نظروں میں گِر گیا ہے…..
وہ سوچ رہا تھا کہ اسے والدین کو منا کر علینہ کی طرف رشتہ لے کر جانا چاہیے تھا…..نا کہ اس سے یوں ملاقاتیں کرنی تھیں…..
اسی رات وہ سمندر کی اس جگہ گیا جہاں وہ دونوں ملتے تھے…..اور وہاں جا کر اسے علینہ کی جو بات یاد آرہی تھی… وہ اسے کسی تیر کی طرح لگ رہی تھی….. اور جب اس نے ریت کو دیکھا تو اسے وہ گھروندے والی بات یاد آئی اور اسی کے کچھ لمحے بعد وہ زمین پہ بے ہوش ہو کر گِر پڑا تھا…..
مگر اس نے بے ہوش ہونے سے پہلے یہ سوچ لیا تھا…..کہ اب وہ فرحانہ کو ہر خوشی دے گا…اور اسی کے ساتھ اپنی زندگی کو باندھ لے گا…..
اور اب علینہ بھی اس کَلی کی طرح تھی…جس پہ بہار آ چکی تھی… ایسی بہار جو گزشتہ تمام خزاؤوں کا ازالہ کرنے کو کافی تھی…..
ختم شد
از سمیع فراز